Posts

قربانی کے اجر کو برباد کرنے سے بچیں

قربانی کے اجر کو برباد کرنے سے بچیں تحریر: وسیم احمد سنابلی مدنی   اخلاص تمام عبادات کی قبولیت کے لئے بنیادی شرط ہے۔ یہ اعمال صالحہ کی روح ہے. وہ عمل جس میں اخلاص نہ ہو اس جسم کے مانند ہے جس میں روح نہ ہو گویا اخلاص عبادات و اعمال میں روح کی حیثیت رکھتا ہے۔ ہمارے اعمال کتنے ہی زیادہ کیوں نہ ہوں اگر اخلاص نہ ہو تو اللہ کے ہاں مقبول نہ ہونگے۔ اللہ رب العزت کا ارشاد ہے : ﴿قُلۡ إِنِّیۤ أُمِرۡتُ أَنۡ أَعۡبُدَ ٱللَّهَ مُخۡلِصࣰا لَّهُ ٱلدِّینَ﴾ [الزمر ١١]  "اے نبی! آپ کہہ دیجئے کہ مجھے حکم دیا گیا کہ دین کو اللہ کے لئے خالص کرتے ہوئے اس کی عبادت کریں"  قربانی کی بابت خصوصیت کے ساتھ اللہ تعالی نے اسی حقیقت کی یاددہانی ان الفاظ میں کرائی ہے۔ ﴿لَن یَنَالَ ٱللَّهَ لُحُومُهَا وَلَا دِمَاۤؤُهَا وَلَـٰكِن یَنَالُهُ ٱلتَّقۡوَىٰ مِنكُمۡۚ ) [الحج ٣٧] ترجمہ: ہرگز نہ (تو) اﷲ کو ان (قربانیوں) کا گوشت پہنچتا ہے اور نہ ان کا خون مگر اسے تمہاری طرف سے تقویٰ پہنچتا ہے۔ اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: " إنَّ اللَّهَ لا يَنْظُرُ إلى صُوَرِكُمْ وأَمْوا

سکون قلب کا حصول کیسے؟

سکون قلب کا حصول کیسے؟ تحریر: وسیم احمد سنابلی مدنی موجودہ زمانہ میں انسان کو آرام و آسائش کے وہ وسائل  اور سامان میسر ہیں جن کا سو سال قبل ان کے آباء و اجداد نے تصور تک نہ کیا تھا۔ ماکولات و مشروبات کی ایسی لمبی فہرست جن کا شمار بھی مشکل ہے، رہنے کے لئے عالیشان بنگلے، فلک بوس عمارتیں، ایرکنڈیشن کمرے، نرم و گداز بستر، ٹھنڈے پانی کے لیے فریج اور گرم پانی کے لیے گیزر ، سفر و سیاحت کے لئے ہوا سے باتیں کرتی ہوئی چمچماتی کاریں، ٹرینیں اور ہوائی جہاز جن کے ذریعے دنوں کا سفر چند گھنٹوں میں بآسانی طے کیا جا سکتا ہے۔ ذرائع ابلاغ و ترسیل کے لیے عمدہ سے عمدہ موبائل فون جن کے ذریعے دنیا کے کسی کونے میں بیٹھے ہوئے شخص تک اپنی بات، افکار ونظریات اور تصویریں سیکنڈوں میں پہنچایا سکتا ہے۔ مگر ان تمام سہولتوں اور آسائشوں کے باوجود آج کا انسان سکون و اطمینان اور حقیقی راحت وآرام سے محروم ہے۔ بےچینی، پریشانی اور اضطرابی کیفیت سے دوچار ہے۔ چنانچہ اس نے سکون اور اطمینان کی تلاش میں مختلف طریقے اپنائے مگر کہیں اسے سکون میسر نہ ہو سکا۔ کسی نے سمجھا کہ راحت و خوشی تخت و تاج اور  عہدے ومناصب کے حصول میں

فرض نمازوں کے بعد سر یا پیشانی پر ہاتھ رکھ کر دعا کرنا

فرض نمازوں کے بعد سر یا پیشانی پر ہاتھ رکھ کر دعا  کرنا تحریر : وسیم احمد سنابلی مدنی نئی دھلی         نماز اسلام کے پانچ بنیادی ارکان میں سے ایک نہایت اہم رکن ہے۔ اقامت صلاۃ مؤمن کی پہچان اور ایمان کی نشانی ہے۔ رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ ہمارے اور ان کافروں کے درمیان حد فاصل نماز ہے ۔(صحیح مسلم ۲/۷۰) یہی وجہ تھی کہ یہ کفر کی طرف منسوب ہونے کے خوف سے منافقین بھی مسجد نبوی میں آکر صلوٰۃ ادا کرتے تھے۔ یہ وہ اہم فریضہ ہے جو کسی بھی حال میں معاف نہیں، حالت امن ہو یا حالت خوف، گرمی ہو یا سردی، تندرستی ہو یا بیماری حتی کہ جہاد اور قتال کے موقع پر عین جنگ میں بھی یہ فرض ساقط نہیں ہوتا۔ نماز بذات خود جتنی اہم ہے طریقہ صلاۃ کی اہمیت بھی اسی قدر بڑھ جاتی ہے ۔نماز کے بارے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا حکم صرف یہی نہیں کہ اسے ادا کرو بلکہ حکم یہ بھی ہے کہ اس طرح ادا کرو جس طرح مجھے ادا کرتے دیکھتے ہو۔ (صحیح بخاری رقم ۶۳۱)۔ مگر آج ہمارے بہت سارے مسلمان بھائی اس اہم فریضہ کی ادائیگی کے وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے طریقہ واسوہ کو سامنے نہیں رکھتے اور جہالت و نادانی کی بن

سائنسی انکشافات اور صداقت قرآن کریم (پارٹ-۴)

سائنسی انکشافات اور صداقت قرآن کریم       تحریر : وسیم احمد سنابلی مدنی نئی دھلی (پارٹ- ۴ ) 14- میٹھے اور نمکین پانیوں کے درمیان آڑ    رب العزت کا ارشاد ہے: "مَرَجَ الْبَحْرَ یْنِ یَلْتَقِیٰنِ ہ بَیْنَھُمَا بَرْ زَ خُ لَّا یَبْغِیٰن"  [الرحمن ١٩-٢٠] ترجمہ:۔ دو سمندروں کو اس نے چھوڑ دیا کہ باہم مل جائیں پھر بھی ان کے درمیان ایک پردہ حائل ہے جس سے وہ تجاوز نہیں کرتے۔ آپ دیکھ سکتے ہیں کہ ان آیات مبارکہ کے عربی متن میں لفظ برزخ استعمال ہوا ہے جس کا مطلب رکاوٹ یا آڑ (partition ) کے ہے۔ تاہم اسی تسلسل کا ایک اور عربی لفظ مرج بھی وارد ہوا ہے۔ جس کا مطلب وہ دونوں ایک دوسرے سے ملتے اور آپس میں ہم آمیز ہوتے ہیں، بنتا ہے۔ ابتدائی ادوار کے مفسرین قرآن کے لیے یہ وضاحت کرنا بہت مشکل تھا کہ پانی کے دو مختلف اجسام سے متعلق دو متضاد مفہوموں سے کیا مراد ہے۔ مطلب یہ کہ دو طرح کے پانی ہیں جو آپس میں ملتے بھی ہیں اورا نکے درمیان آڑ (رُکاوٹ ) بھی ہے۔ جدید سائنس نے دریافت کیا ہے کہ جہاں جہاں دو مختلف سمندر آپس میں ملتے ہیں وہاں وہاں ان کے درمیان آڑ بھی ہوتی ہے۔ دو سمندروں کو

سائنسی انکشافات اور صداقت قرآن کریم (پارٹ-۳)

سائنسی انکشافات اور صداقت قرآن کریم       تحریر : وسیم احمد سنابلی مدنی نئی دھلی (پارٹ-۳) ۸-نشانات انگشت ( Finger Prints) "أَیَحۡسَبُ ٱلۡإِنسَـٰنُ أَلَّن نَّجۡمَعَ عِظَامَهُۥ بَلَىٰ قَـٰدِرِینَ عَلَىٰۤ أَن نُّسَوِّیَ بَنَانَهُۥ﴾ [القيامة ٣-٤] ترجمہ:۔ کیا انسان یہ سمجھ رہا ہے کہ ہم اس کی ہڈیوں کو جمع نہ کرسکیں گے؟ کیوں نہیں؟ ہم تو اس کی انگلیوں کی پور پور (finger tips) تک ٹھیک بنادینے پر قادر ہیں۔ کفاراور ملحدین یہ اعتراض کرتے ہیں کہ جب کوئی شخص مرجانے کے بعد مٹی میں مل جاتا ہے اور اس کی ہڈیاں تک بوسیدہ ہو جاتی ہیں تو یہ کیسے ممکن ہے کہ قیامت کے روز اُسکے جسم کا ایک ایک ذرہ دوبارہ یکجا ہو کرپہلے والی( زندہ) حالت میں واپس آجائے ۔ اور اگر ایسا ہوبھی گیا تو روزِ محشراس شخص کی ٹھیک ٹھیک شناخت کیونکر ہو گی؟ اللہ تعالیٰ رب ذوالجلال نے مذکورہ بالا آیات مبارکہ میں اسی اعتراض کا بہت واضح جواب دیتے ہوئے فرمایا ہے کہ وہ ( اللہ تعالیٰ) صرف اسی پر قدرت نہیں رکھتا کہ ریزہ ہڈیوں کو واپس یکجا کر دے۔ بلکہ اس پر بھی قادر ہے کہ ہماری انگلیوں کی پوروں (finger tips) تک دوبارہ سے پہلے

سائنسی انکشافات اور صداقت قرآن کریم (پارٹ۔۲)

سائنسی انکشافات اور صداقت قرآن کریم       تحریر : وسیم احمد سنابلی مدنی نئی دھلی (پارٹ۔۲) ۴ - جنس کاتعین پختہ جنین( foetus) کی جنس کا تعین ( یعنی اس سے لڑکا پیدا ہوگا یالڑکی) نُطفہ کے خلیے ( sperm) سے ہوتا ہے نہ کہ بیضے (ovum) سے۔ مطلب یہ کہ رحم مادر میں ٹھہرے والے حمل سے لڑکا پیدا ہوگا یا لڑکی اسکا انحصار کروموسوم کے ٢٣ ویں جوڑے میں بالترتیب xx / xy کروموسومز کی موجودگی پرہوتا ہے۔ ابتدائی طور پر جنس کا تعین بارآوری کے موقع پر ہی ہو جاتا ہے اور اس کا انحصار خلوی نطفے (sperm) کے صنفی کروموسوم chromosomes) sex) پرہوتا ہے۔ جو بیضے کو بار آور کرتا ہے۔ اگر بیضے کو بارآور کرنے والے سپرم (sperm) میں x صنفی کروموسوم ہے تو ٹھہرے والے حمل سے لڑکی پیدا ہوگی۔ اس کے برعکس، اگر اسپرم (sperm) میں صنفی کروموسوم y ہے توحمل کے نتیجے میں لڑکا پیدا ہوگا۔ اللہ تعالی کا ارشاد ہے: وَ اَنَّہ خَلَقَ الزوْ جَیْنِ الذَّ کَرَ وَ الْاُ نْثٰی ہ مِنْ نُّطْفَةٍ اِ ذا تمنی ہ [النجم ٤٥-٤٦] ترجمہ:۔ اوریہ کہ اسی نے نر اور مادہ کا جوڑا پیداکیا، ایک بوند سے جب وہ ٹپکائی جاتی ہے۔  یہاں عربی لفظ نطفہ کا مطل

سائنسی انکشافات اور صداقت قرآن کریم

سائنسی انکشافات اور صداقت قرآن کریم       تحریر : وسیم احمد سنابلی مدنی نئی دھلی (پارٹ۔۱)          بلا شبہہ قرآن کریم اللہ رب العزت کا آخری کلام ہے جسے اس نے قیامت  تک آنے والے تمام انسانوں کی رشد و ہدایت کے لئے نازل فرمایا ہے، جو شخص بھی کھلے ذہن سے طلب حق کے لیے اس کی آیات میں غور و فکر کرے گا تو وہ اس کے کلام ربانی ہونے کا اقرار و اعتراف کئے بغیر نہیں رہ سکتا۔ قرآن کریم نے اپنے آغاز نزول ہی سے دنیا کے سامنے یہ چیلنج پیش کیا کہ جو اس کے کلام الٰہی ہونے میں شک وشبہہ میں مبتلا ہیں وہ اس جیسی ایک سورت یا ایک آیت ہی بنا کر پیش کر دیں مگر  تاریخ شاہد ہے کہ چودہ صدیاں گزر جانے کے بعد بھی قرآن کریم کا یہ چیلنج جوں کا توں برقرار ہے، کسی فرد بشر نے آج تک نہ اسکا جواب دیا اور نہ قیامت تک دے سکتا ہے۔  موجودہ زمانہ میں سائنسی علوم و حقائق کو تفوق و برتری حاصل ہے، ان کے مشاہدات اور تجربات پر مبنی ہونے کی وجہ سے انہیں مسلمہ حقیقت کا درجہ حاصل ہے۔عصر حاضر میں بعض سائنسی انکشافات نے قرآن کریم کی صداقت اور حقانیت کو دنیا کے سامنے بہت واضح انداز میں اجاگر کردیا ہے، قرآن کریم کی بہت سی آیا