سائنسی انکشافات اور صداقت قرآن کریم (پارٹ۔۲)

سائنسی انکشافات اور صداقت قرآن کریم      
تحریر : وسیم احمد سنابلی مدنی نئی دھلی
(پارٹ۔۲)
۴- جنس کاتعین
پختہ جنین( foetus) کی جنس کا تعین ( یعنی اس سے لڑکا پیدا ہوگا یالڑکی) نُطفہ کے خلیے ( sperm) سے ہوتا ہے نہ کہ بیضے (ovum) سے۔ مطلب یہ کہ رحم مادر میں ٹھہرے والے حمل سے لڑکا پیدا ہوگا یا لڑکی اسکا انحصار کروموسوم کے ٢٣ ویں جوڑے میں بالترتیب xx / xy کروموسومز کی موجودگی پرہوتا ہے۔ ابتدائی طور پر جنس کا تعین بارآوری کے موقع پر ہی ہو جاتا ہے اور اس کا انحصار خلوی نطفے (sperm) کے صنفی کروموسوم chromosomes) sex) پرہوتا ہے۔ جو بیضے کو بار آور کرتا ہے۔ اگر بیضے کو بارآور کرنے والے سپرم (sperm) میں x صنفی کروموسوم ہے تو ٹھہرے والے حمل سے لڑکی پیدا ہوگی۔ اس کے برعکس، اگر اسپرم (sperm) میں صنفی کروموسوم y ہے توحمل کے نتیجے میں لڑکا پیدا ہوگا۔ اللہ تعالی کا ارشاد ہے:

وَ اَنَّہ خَلَقَ الزوْ جَیْنِ الذَّ کَرَ وَ الْاُ نْثٰی ہ مِنْ نُّطْفَةٍ اِ ذا تمنی ہ [النجم ٤٥-٤٦]
ترجمہ:۔ اوریہ کہ اسی نے نر اور مادہ کا جوڑا پیداکیا، ایک بوند سے جب وہ ٹپکائی جاتی ہے۔ 
یہاں عربی لفظ نطفہ کا مطلب تومائع کی نہایت قلیل مقدار ہے جبکہ تمُنٰی کامطلب شدت سے ہونے والا اخراج یا پودے کی طرح بوئی گئی کوئی چیز ہے لہذا نطفہ بطور خاص اسپرم (sperm) ہی کی طرف اشارہ کر رہاہے کیونکہ یہ شدت سے خارج ہوتاہے ۔
قرآن پاک میں ارشاد ہوتاہے۔
اَ لَمْ یَکُ نُطْفَةً مِّنْ مَّنِیٍٍّ یُّمْنٰی ہ ثُمَّ کَا نَ عَلَقَةً فَخَلَقَ فَسَوّٰ ی ہ فَجَعَلَ مِنْہُ الزَّ وْ جَیْنِ الذَّ کَرَ وَا لْاُ نْثٰی ط ہ [القيامة ٧٥-٧٧]
ترجمہ:۔ کیاوہ ایک حقیرپانی کانطفہ نہ تھا جو(رحم مادرمیں) ٹپکایا جاتاہے؟ پھروہ ایک لوتھڑابنا پھراللہ تعالی نے اس کا جسم بنایااوراسکے اعضاء درست کیے، پھراس سے مرد اور عورت کی دوقسمیں بنایٔیں۔
ملأ خطہ فرمایے کہ یہاں ایک بارپھر یہ بتایا گیاہے کہ نہایت قلیل مقدار ( قطرے) پر مشتمل مادہ تولید( جس کے لیے عربی عبادت نُطْفَةًمّن مَّنِیٍّ واردہوئی ہے ) جو مرد کی طرف سے آتاہے۔ اوریہ رحم مادر میں بچے کی جنس کے تعین کا ذمہ دار ہے۔
برصغیرمیں یہ افسوس ناک رواج ہے کہ عام طور پر ساسوں كو پوتیوں سے زیادہ پوتوں کاارمان ہوتاہے۔ اور اگربہو کے ہاں بیٹوں کے بجائے بیٹیاں پیداہو رہی ہوں تووہ انہیں اولادِ نرینہ پیدانہ کرسکنے پر طعنہ دیتی ہیں۔ اگرانہیں صرف یہی پتہ چل جاتا کہ اولاد کی جنس کے تعین میں عورت کے بیضے کا کوئی کردار نہیں اور اس کی تمام ترذمہ داری مردانہ نطفے (sperm) پر عائد ہوتی ہے اور اگر پھربھی وہ لعن طعن پر آمادہ ہو تو اُنہیں چاہیے کہ وہ (اولادِنرینہ کے نہ ہونے پر) اپنی بہوؤں کے بجائے اپنے بیٹوں کو طعنہ دیں۔ قرآن پاک اور جدید سائنس دونوں اس بات پر متفق ہے کہ بچے کی جنس کا تعین میں مردانہ تولیدی مواد ہی ذمہ دا رہے، عورت کا اس میں کوئی قصور نہیں۔

۵- پودوں میں نر اور مادہ:
پرانے زمانے کے انسان کو یہ معلوم نہیں تھا کہ پودوں میں بھی جانوروں کی طرح نر(male) اور مادہ (female) ہوتے ہیں۔ البتہ جدید نباتیات یہ بتاتی ہے کہ ہر پودے کی نر اور مادہ صنف ہوتی ہے۔ حتٰی کہ وہ پودے جو یک صنفی (Unisexual) ہوتے ہیں۔ ان میں بھی نراور مادہ کے امتیازی اجزاء یکجا ہوتے ہیں۔
و انزل من السماء  ماء فَاَ خْرَجْنَا بِہ اَزْ وَا جًا مِّنْ نَّبَا تٍ شَتّٰی ہ[طه ٥٣]
ترجمہ:۔ اور ہم نے آسمان سے پانی برسایا اور اس میں ہم نے مختلف اقسام کے پودوں کے جوڑے پیدا کیے جو ایک دوسرے سے جدا ہوتے ہیں۔
پھلوں میں نر اور مادہ کا فرق:
وَ مِنْ کُلِّ الثَّمَرٰتِ جعَلَ فِیْھَا زَوْ جَیْنِ اثْنَیْن[الرعد٣]
ترجمہ :۔ اسی نے ہر طرح کے پھلوں کے جوڑے پیدا کیے ہیں۔
اعلٰی درجے کے پودوں میں نسل خیزی (Reproduction) کی آخری پیدا وار ان کے پھل ہوتے ہیں۔ پھل سے پہلے پھول کا مرحلہ ہوتا ہے جس میں نراور مادہ اعضاء یعنی اسٹیمنز (Stamens) اور اوویولز (Ovueles) ہوتے ہیں جب کوئی زردانہ (Pollen) کسی پھول تک پہنچتا ہے، تبھی وہ پھول بارآور ہو کر پھل میں بدلنے کا قابل ہوتا ہے۔ یہاں تک کہ پھل پک جاتا ہے اور (اس پودے کی ) اگلی نسل کو جنم دینے والے بیج سے لیس ہو کر تیار ہو جاتا ہے۔ لہٰذا تمام پھل اس امر کا پتہ دیتے ہیں کہ (پودوں میں بھی) نر اور اعضاہوتے ہیں۔ یہ ایک ایسی سچائی ہے جسے قرآن پاک بہت پہلے بیان فرما چکا ہے۔
پودوں کی بعض انواع میں غیر بارآور (non fertilized) پھولوں سے بھی پھل بن سکتے ہیں۔ (جنہیں مجموعی طور پرپارتھینوکارپک فروٹ (parthinocarpic fruit) کہا جاتا ہے) ان میں کیلے کے علاوہ انناس، انجیر، مالٹا اور انگور وغیرہ کی بعض اقسام شامل ہیں۔ ان پودوں میں بھی بہت واضح صنفی خصوصیات موجود ہوتی ہیں۔
وَ مِنْ کُلِّ شَیْئٍ خَلَقْنَا زَوْ جَیْنِ[الذاريات ٤٩]
ترجمہ:۔ اور ہر چیز کے ہم نے جوڑے بنائے ہیں۔
اس آیت مبارکہ میںہر چیز کے جوڑوں کی شکل میں ہونے پر زور دیا گیا ہے۔ انسانوں، جانوروں، پھلوں اور پودوں کے علاوہ بہت ممکن ہے کہ یہ آیت مبارکہ بجلی کی طرف بھی اشارہ کر رہی ہو جس میں ایٹم منفی بار والے الیکٹرونوں اور مثبت بار والے مرکزے پر مشتمل ہوتے ہیں۔ ان کے علاوہ اور بھی بہت سے جوڑے ہو سکتے ہیں۔
سُبْحٰنَ الَّذِیْ خَلَقَ الْاَزْ وَاجَ کُلَّھَا وَ مِمَّا تُنْبِت ُ الْاَرْضُِ وَ مِنْ اَنْفُسِھِمْ وَ مِمَّا لَا یَعْلَمُوْنَ ہ[يس ٣٦]
ترجمہ:۔ پاک ہے وہ ذات جس نے جملہ اقسام کے جوڑے پیدا کیے خواہ وہ زمین کی نباتات میں سے ہوں یا خود ان کی اپنی جنس (یعنی نوع انسانی) میں سے یا ان اشیاء میں سے جن کو یہ جانتے تک نہیں۔
یہاں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ہر چیز جوڑوں کی شکل میں پیدا کی گئی ہے، جن میں وہ چیزیں بھی شامل ہیں۔ جنہیں آج کا انسان نہیں جانتا اور ہو سکتا ہے کہ آنے والے کل میں انہیں دریافت کرلے۔

۶- جلد میں درد کے اخذے ( Pain Receptors) 
پہلے یہ سمجھا جاتا تھا کہ محسوسات اور درد وغیرہ کا انحصار صرف اور صرف دماغ پر ہوتا ہے البتہ حالیہ دریافتوں سے یہ معلوم ہوا ہے کہ جلد میں درد کو محسوس کرنے والے آخذے (Receptors) ہوتے ہیں۔ اگریہ خلیات نہ ہو تو انسان درد کو محسوس کرنے کے قابل نہیں رہتا۔
جب کوئی ڈاکٹر کسی مریض میں جلنے کی باعث پڑنے والے زخموں کا معائنہ کرتا ہے تووہ جلنے کا درجہ ( شدت) معلوم کرنے کے لیے ( جلے ہوئے مقام پر) سوئی چبھوکردیکھتاہے۔ اگر چُھبنے سے متاثرہ شخص کو درد محسوس ہوتاہے تو ڈاکٹر کو اس پر خوشی ہوتی ہے ۔۔۔ کیونکہ اس کا مطلب یہ ہوتاہے کہ جھلنے کا زخم صرف باہر کی حد تک ہے اوردردمحسوس کرنے والے خلیات (درد کے آخذے) محفوظ ہیں۔ اس کے برخلاف اگر متاثرہ شخص کو سوئی چُھبنے پر درد محسوس نہ ہوتو یہ تشویشناک امرہوتا ہے کیونکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ جلنے سے بننے والے زخم کی گہرائی زیادہ ہے اور درد کے آخذے (receptor) بھی مردہ ہوچکے ہیں۔
درج ذیل آیت مبارکہ میں قرآن پاک نے بہت واضح الفاظ میں درد کے آخذوں کی موجودگی کے بارے میں بیان فرمایاہے: 
اِنَّ االذين کَفَرُوْ ا بِاٰ یٰتِنَا سَوْفَ نُصْلِیْھِمْ نَا رًا ط کُلَّمَا نَضِجَتْ جُلُوْدُھُمْ بَدَّ لْنٰھُمْ جُلُوْ دًا غَیْرَھَا لِیَذُ وْ قُوا الْعَذَابَ ط اِنَّ اللّٰہَ کَا نَ عَزِیزً ا حَکِیْمًا ہ[النساء ٥٦]
ترجمہ۔:جن لوگوں نے ہماری آیات ما ننے سے انکار کر دیا ہے انہیں بالیقین ہم آگ میں جھونکیں گے اور جب اس کے بدن کی کھال گَل جائے گی تو اس کی جگہ دوسری کھال پیدا کر دیں گے تاکہ وہ خوب عذاب کا مزہ چکھیں۔ اللہ بڑی قدرت رکھتاہے اوراپنے فیصلوں کو عمل میں لانے کی حکمت کو خوب جانتاہے۔
تھائی لینڈ میں چانگ مائی یونیورسٹی کے ڈیپارٹمنٹ آف اناٹونی کے سربراہ پروفیسر تیگاتات تیجاشان (Tagatat Tejasen) نے درد کے آخذوں پرتحقیق میں بہت وقت صرف کیا۔ پہلے تو انہیں یقین ہی نہیں آیا کہ قرآن پاک نے ١٤٠٠ سال پہلے اس سائنسی حقیقت کا انکشاف کر دیا ہوگا۔ تاہم بعد ازاں جب انہوں نے مذکورہ آیت قرآنی کے ترجمے کی باقاعدہ تصدیق کرلی تو وہ قرآن پاک کی سائنسی درستی سے اس قدر متاثر ہوئے کہ سعودی عرب کے شہرریاض میں منعقدہ آٹھویں سعودی طبی کانفرنس کے موقع پر جس کا موضوع 'قرآن پاک اور سنت میں سائنسی نشانیاں' تھا انہوں نے بھرے مجمع میں فخرکے ساتھ کہا۔
لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ مُحَمَّدُ الرَّسُوْلُ اللّٰہ۔
ترجمہ: اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں محمدۖ اللہَّ کے رسول ہے۔

۷- شہد : نوع انسانی کے لیے شفا
شہد کی مکھی کئی طرح کے پھلوں اور پھولوں کا رس چوستی ہے اور اسے اپنے ہی جسم کے اندر شہد میں تبدیل کرتی ہے۔ اس شہد کو وہ اپنے چھتے میں بنے خانوں (Cells)میں جمع کرتی ہے۔ آج سے صرف چند صدیوں قبل ہی انسان کو یہ معلوم ہوا ہے کہ شہد اصل میں شہد کی مکھی کے پیٹ (Belly)سے نکلتا ہے، مگر یہ حقیقت قرآن پاک نے ١٤٠٠ سال پہلے درج ذیل آیات مبارکہ میں بیان کر دی تھی۔
یَخْرُجُ مِنْ بَطُوْنِھَا شَرَا بُ مُّخْتَلِفُ اَ لْوَ انُہ فِیْہِ شِفَاء لِّلنَّا سِ ط [النحل ٦٩]
ترجمہ : اس مکھی کے (پیٹ کے ) اندر سے رنگ برنگ کا ایک شربت نکلتا ہے جس میں شفا ہے لوگوں کے لیے ۔
علاوہ ازیں ہم نے حال ہی میں دریافت کیا ہے کہ شہد میں زخم کوٹھیک کرنے کی شفا بخش خصوصیات پائی جاتی ہیں اور یہ نرم(مرہم جیسی) جراثیم کش دوا (Mild antiseptic) کا کام بھی کرتا ہے۔ دوسری جنگ عظیم میں رو سیوں نے بھی اپنے زخمی فوجیوں کے زخم ڈھانپنے کے لیے شہد کا استعمال کیا تھا۔ شہدکی یہ خاصیت ہے کہ یہ نمی کو برقرار رکھتا ہے اور بافتوں (tissue) بر زخمو ں کے بہت ہی کم نشان باقی رہنے دیتا ہے شہد کی کثافت (Density) کے باعث کوئی پپوندی (fungus) یا جراثیم، زخم میں پروان نہیں چڑھ سکتے۔
سسٹر کیرول (Carole) نامی ایک مسیحی راہبہ (Nun) نے برطانوی شفا خانوں میں سینے اور الزائیمر:Alzheimer) ایک بیماری کانام )کے بیماریوں میں مبتلابائیس ٢٢ ناقابل علاج مریضوں کا علاج پرپولس (Propolis) نامی مادے سے کیا۔ شہد کی مکھیاں یہ مادہ پیدا کرتی ہیں اور اسے اپنے چھتّے کے خانوں کو جرا ثیموں کوروکنے کے لیے استعمال کرتی ہیں۔
اگر کوئی شخص کسی پودے سے ہونے والی الرجی میں مبتلا ہو جائے تو اسی پودے سے حاصل شدہ شہد اس شخص کو دیا جا سکتا ہے تا کہ وہ الرجی کے خلاف مزاحمت پیدا کرلے۔ شہد و ٹامن۔ کے (vitamen K) اور فر کٹوز (: Fructoseایک طرح کی شکّر) سے بھی بھر پور ہوتا ہے۔
قرآن میں شہد اس کی تشکیل اور خصوصیا ت کے بارے میں جو علم دیا گیا ہے اسے انسان نے نزول قرآن کے صدیوں بعد اپنے تجربے اور مشاہدے سے دریافت کیا ہے۔                              (ماخوذ)

Comments

Popular posts from this blog

ہم ذکاة كيسے ادا کریں؟

قربانی کے اجر کو برباد کرنے سے بچیں

نیکیوں کا موسم بہار