سائنسی انکشافات اور صداقت قرآن کریم (پارٹ-۴)

سائنسی انکشافات اور صداقت قرآن کریم      
تحریر : وسیم احمد سنابلی مدنی نئی دھلی
(پارٹ-۴)

14- میٹھے اور نمکین پانیوں کے درمیان آڑ
   رب العزت کا ارشاد ہے:
"مَرَجَ الْبَحْرَ یْنِ یَلْتَقِیٰنِ ہ بَیْنَھُمَا بَرْ زَ خُ لَّا یَبْغِیٰن"
 [الرحمن ١٩-٢٠]
ترجمہ:۔ دو سمندروں کو اس نے چھوڑ دیا کہ باہم مل جائیں پھر بھی ان کے درمیان ایک پردہ حائل ہے جس سے وہ تجاوز نہیں کرتے۔
آپ دیکھ سکتے ہیں کہ ان آیات مبارکہ کے عربی متن میں لفظ برزخ استعمال ہوا ہے جس کا مطلب رکاوٹ یا آڑ (partition ) کے ہے۔ تاہم اسی تسلسل کا ایک اور عربی لفظ مرج بھی وارد ہوا ہے۔ جس کا مطلب وہ دونوں ایک دوسرے سے ملتے اور آپس میں ہم آمیز ہوتے ہیں، بنتا ہے۔
ابتدائی ادوار کے مفسرین قرآن کے لیے یہ وضاحت کرنا بہت مشکل تھا کہ پانی کے دو مختلف اجسام سے متعلق دو متضاد مفہوموں سے کیا مراد ہے۔ مطلب یہ کہ دو طرح کے پانی ہیں جو آپس میں ملتے بھی ہیں اورا نکے درمیان آڑ (رُکاوٹ ) بھی ہے۔ جدید سائنس نے دریافت کیا ہے کہ جہاں جہاں دو مختلف سمندر آپس میں ملتے ہیں وہاں وہاں ان کے درمیان آڑ بھی ہوتی ہے۔ دو سمندروں کو تقسیم کرنے والی رکاوٹ یہ ہے کہ ان میں ایک سمندر کا درجہ حرارت، شو ریدگی (Salinity) اور کثافت (Density) دوسرے سے مختلف ہوتے ہیں۔ آج ماہرین بحریات مذکورہ آیات مبارکہ کی بہتر وضاحت کرسکتے ہیں۔ دو بحیروں کے درمیان پانی ہی کی ایک نازک رکاوٹ (طبعی قوتوں کی وجہ سے ) قائم ہوتی ہے۔ جس سے گزر کر ایک بحیرے کا پانی دوسرے بحیرے میں داخل ہوتا ہے تو وہ اپنی امتیازی خصوصیات کھو دیتا ہے اور دوسرے کے پانی کے ساتھ ہم جنس آمیزہ بنالیتا ہے، گویا ایک طرح سے یہ رکاوٹ کسی عبوری ہم آمیزی والے علاقے کا کام کرتی ہے، جو دونوں بحیروں کے درمیان واقع ہوتا ہے۔ یہ مظہر درج ذیل آیت قرآنی میں بھی بیان کیا گیا ہے۔

"وَجَعَلَ بَیْنَ الْبَحْرَیْنِ حَاجِزً ا " [النمل ٦١]
ترجمہ: اور پانی کے دو ذخیروں کے درمیان پردے حائل کردئے۔ یہ مظہر متعدد مقامات پر وقوع پزیر ہوتا ہے جن میں جبل الطارق (جبرالٹر) کے علاقے میں بحیرہ روم اور بحر اوقیانوس کے ملنے کا مقام نمایاں طور پر قابل ذکر ہے۔ اسی طرح کیپ پوائنٹ اور کیپ پینسولا جنوبی افریقا میں بھی (پانی کے بیچ) ایک سفید پٹی واضح طور دیکھی جاسکتی ہے جہاں بحر اوقیانوس اور بحر ہند کا ایک دوسرے سے ملاپ ہوتا ہے۔ ہندوستان میں الہ آباد میں گنگا اور جمنا کے سنگم پر یہ نظارہ دکھائی دیتا ہے۔
لیکن جب قرآن پاک تازہ اور کھارے پانی کے درمیان رکاوٹ (آڑ) کا تذکرہ کرتا ہے تو اس آڑ کے ساتھ ایک ممنوعہ علاقے کے بارے میں بھی بتاتا ہے:

۞ وَهُوَ ٱلَّذِی مَرَجَ ٱلۡبَحۡرَیۡنِ هَـٰذَا عَذۡبࣱ فُرَاتࣱ وَهَـٰذَا مِلۡحٌ أُجَاجࣱ وَجَعَلَ بَیۡنَهُمَا بَرۡزَخࣰا وَحِجۡرࣰا مَّحۡجُورࣰا﴾ [الفرقان ٥٣]
ترجمہ: اور وہی ہے جس نے دو سمندروں کو ملا کر رکھا ہے، ایک لذیذ و شیریں، دوسرا تلخ و شور اور ان دونوں کے درمیان ایک پردہ حائل ہے ایک رکاوٹ ہے جو انہیں گڈمڈ ہونے سے روکے ہوئے ہے۔
جدید سائنس نے دریافت کیا ہے کہ ساحل کے نزدیکی (سمندری) مقامات پر جہاں (دریا کا)تازہ (میٹھا) اور (سمندرکا) نمکین پانی آپس میں ملتے ہیں وہاں کی کیفیت ان مقامات سے قدرے مختلف ہوتی ہے جہاں دو سمندروں کے نمکین پانی آپس میں ملتے ہیں یہ دریافت کہ کھاڑیوں میں تازہ پانی کو کھارے پانی سے جو چیز جدا کرتی ہے وہ پایکنو کلائن زون (Pycnocline Zone) ہے جس کی کثافت غیر مسلسل ہوتی ہے (یعنی گھٹتی بڑھتی رہتی ہے) جو (کھاری اور تازہ پانی کی) مختلف پرتوں کو ایک دوسرے سے الگ رکھتی ہے۔ اس رکاوٹ (یعنی علاقہ امتیاز) کے پانی میں نمک کا تناسب تازہ پانی اور کھارے پانی دونوں ہی سے مختلف ہوتا ہے۔
اس مظہر کا مشاہدہ بھی متعدد مقامات پر کیا گیا ہے جن میں مصر بطور خاص قابل ذکر ہے کہ جہاں دریائے نیل بحیرہ روم میں گرتا ہے۔
قرآن پاک میں بیان کیے گئے ان سائنسی مظاہر کی تصدیق ڈاکٹر ولیم ہے' (Dr. William Hay) نے بھی کی ہے، جو کولوراڈو یونیورسٹی امریکا کے مشہور ماہر بحریات اور علوم ارضی کے پروفیسر ہیں۔

15- سمندر کی گہرائیوں میں اندھیرا
پروفیسر درگارائو (Darga Rao) دنیا کے جانے پہچانے ماہر بحری ارضیات ہیں اور وہ شاہ عبد العزیز یونیورسٹی، جدہ (سعودی عرب) میں پروفیسر بھی رہ چکے ہیں۔ ان سے درج ذیل آیت مبارکہ پر تبصرہ کرنے کے لیے کہاگیا۔

﴿أَوۡ كَظُلُمَـٰتࣲ فِی بَحۡرࣲ لُّجِّیࣲّ یَغۡشَىٰهُ مَوۡجࣱ مِّن فَوۡقِهِۦ مَوۡجࣱ مِّن فَوۡقِهِۦ سَحَابࣱۚ ظُلُمَـٰتُۢ بَعۡضُهَا فَوۡقَ بَعۡضٍ إِذَاۤ أَخۡرَجَ یَدَهُۥ لَمۡ یَكَدۡ یَرَىٰهَاۗ وَمَن لَّمۡ یَجۡعَلِ ٱللَّهُ لَهُۥ نُورࣰا فَمَا لَهُۥ مِن نُّورٍ﴾ [النور ٤٠]
ترجمہ:۔ یا پھراس کی مثال ایسی ہے جیسے ایک گہرے سمندر میں اندھیرا ہو جس پر ایک موج چھائی ہوئی ہو۔ اس کے اوپر ایک اور موج آ رہی ہو اور اس کے اوپر بادل ہو، تاریکی پر تاریکی مسلط ہے۔ آدمی اپنا ہاتھ نکالے تو اسے بھی نہ دکھنے پائے۔ اللہ جسے نور نہ بخشے اس کے لیے پھر کوئی نور نہیں۔
پروفیسر رائو نے کہا کہ سائنس دان صرف حال ہی میں جدید آلات کی مدد سے یہ تصدیق کرنے کے قابل ہوئے ہیں کہ سمندر کی گہرائیوں میں تاریکی ہوتی ہے۔ یہ انسان کے بس سے باہر ہے کہ وہ 20 یا 30میٹر سے زیادہ گہرائی میں اضافی سازو سامان اور آلات سے لیس ہوئے بغیر غوطہ لگا سکے۔ علائو ازیں، انسانی جسم میں اتنی قوت برداشت نہیں کہ جو 200 میٹر سے زیادہ گہرائی میں پڑنے والے آبی دباؤ کا سامنا کرتے ہوئے زندہ بھی رہ سکے۔ یہ آیت تمام سمندروں کی طرف اشارہ نہیں کرتی کیونکہ ہر سمندر کو پرت در پرت تاریکی کا حامل قرار نہیں دیا جا سکتا۔ البتہ یہ آیت مبارک بطور خاص گہرے سمندروں کی جانب متوجہ کرتی ہے کیونکہ قرآن پاک کی اس آیت میں بھی وسیع اور گہرے سمندر کی تاریکی کا حوالہ دیا گیا ہے۔

16- خیموں کی میخوں کی مانند پہاڑ

ارضیات (Geology) میں بل پڑے (Folding Phenamenon) کا مظہر حالیہ دریافت شدہ حقیقت ہے۔ قشر ارض (Earth's Crust) میں بل پڑنے ہی کی وجہ سے پہاڑی سلسلے وجود میں آتے ہیں۔ قشرارض، جس پر ہم رہتے ہیں، کسی ٹھوس گولے کی طرح ہے، جبکہ کرہ زمین کی اندرونی پرتیں (layers)، نہایت گرم اور مائع ہیں۔
یہی وجہ ہے کہ زمین کا اندرون کسی بھی قسم کی زندگی کے لیے قطعاً غیر موزوں ہے۔ آج ہمیں یہ بھی معلو م ہو چکا ہے کہ پہاڑوں کے استحکام کا تعلق، قشر ارض پر پڑنے والے بل ہی ہیں جو پہاڑوں کا کام کرتے ہیں۔ ماہرین ارضیات کا کہنا ہے کہ زمین کا ریڈیس (Radius) یعنی نصف قطر (Diameter) تقریباً 6035 کلو میٹر ہے اور قشر ارض یعنی (Earth Crust)، جس پر ہم رہتے ہیں۔ اس کے مقابلے میں بہت پتلی ہے، جس کی موٹائی 2کلو میٹر سے لے کر 35کلو میٹر تک ہے۔ چونکہ قشرارض بہت پتلی ہے، لہذا اس کے تھر تھرانے یا ہلنے کا امکان بھی زیادہ ہے، ایسے میں پہاڑ کسی خیمے کی میخوں کی طرح کام کرتے ہیں۔ جو قشر ارض کو تھام لیتے ہیں اور اسے استحکام (Stability) عطا کرتے ہیں۔ قرآن پاک میں بھی عین یہی کہا گیا ہے۔

﴿أَلَمۡ نَجۡعَلِ ٱلۡأَرۡضَ مِهَـٰدࣰا وَٱلۡجِبَالَ أَوۡتَادࣰا﴾ [النبأ٦- ٧]
ترجمہ:۔ کیا یہ واقعہ نہیں ہے کہ ہم نے زمین کو فرش بنایا اور پہاڑوں کو میخوں کی طرح گاڑ دیا۔
یہاں عربی لفظ اوتاد کا مطلب بھی میخیں ہی نکلتا ہے، ویسی ہی میخیں جیسی کہ خیمے کو باندھے رکھنے کے لیے لگائی جاتی ہیں۔ ارضیاتی بلوں یا سلوٹوں کی گہری بنیادیں بھی یہی ہیں۔ ایک کتاب جس کا نام Earth ہے اور یہ دنیا بھر کی کئی جامعات (Universities) میں ارضیات کی بنیادی حوالہ جاتی نصابی کتاب کا درجہ بھی رکھتی ہے، اس کتاب کے مصنفین میں ایک نام ڈاکٹر فرینک پریس (Frank Press) کا بھی ہے، جو 12سال تک امریکا اکیڈمی آف سائنسز کے سربراہ رہے ہیں۔ جبکہ سابق امریکی صدر جمى کارٹر کے زمانے میں صدارتی مشیر بھی تھے۔ اس کتاب میں وہ پہاڑوں کی وضاحت، کلہاڑی کے پھل (Wedge Shape) جیسی شکل سے کرتے ہوئے بتاتے ہیں کہ پہاڑ بذات خود ایک وسیع تر وجود کا ایک چھوٹا حصہ ہوتا ہے۔ جس کی جڑیں زمین میں بہت گہرائی تک اترى ہوئی ہوتی ہیں۔
ڈاکٹر فرینک پریس کے مطابق، قشر ارض کی پائیداری اور قیام پذیری میں پہاڑ نہایت اہم کردار ادا کرتے ہیں۔
پہاڑوں کے کاموں کی وضاحت کرتے ہوئے قرآن پاک واضح طور پر یہ فرماتا ہے کہ انہیں اس لیے بنایا گیا ہے تاکہ یہ زمین کو لرزتے رہنے سے بچائیں:

 "وَجَعَلۡنَا فِی ٱلۡأَرۡضِ رَوَ ٰ⁠سِیَ أَن تَمِیدَ بِهِمۡ"  [الأنبياء ٣١]
ترجمہ:۔ اور ہم نے زمین میں پہاڑ جما دئے تاکہ انہیں لے کر ڈھلک نہ جائے۔
اسی طرح کے ارشادات سورة 31آیت 10سورة 10آیت 15میں بھی وارد ہوئے ہیں، لہذا قرآن پا ک کے فراہم کردہ بیانات جدید ار ضیاتی معلوم سے مکمل طر پر ہم آہنگ ہیں۔
کیا کوئی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد میں پہاڑوں کی حقیقی شکل کے بارے میں جان سکتا تھا؟ کیا کوئی تصور کرسکتا تھا اس ٹھوس اور بلند و بالا پہاڑ جو آسمان کو چھوتے نظر آتے ہیں، دراصل زمین کے اندر بہت گہرائی میں اترے ہوئے ہیں ۔ اور مضبوط جڑیں رکھتے ہیں جیسا کہ آج کے سائنسداں اس کی تصدیق کرتے ہیں ۔ مثلا کوہ قاف کی بلند ترین چوٹی 5642 کلومیٹر یعنی تقریبا 5.6 کلومیٹر اونچی ہیں۔ سو بیالیس میں تقریبا پانچ فٹ چھ کلو میٹر اونچی ہے مگر اسی کوہ قاف کی جڑیں زمین کے اندر تقریبا 65 کلومیٹر تک گڑی ہوئی ہیں۔یوں جدید علم الارض نے قرآنی آیات کی صداقت کا اعتراف کرلیا ہے۔

17- خون کی گردش (Blood circulation) اور دودھ۔
 قرآن پاک کا نزول، دوران خون کی وضاحت کرنے والے اولین مسلمان سائنس دان ابن النفیس سے ٦٠٠(چھ سو)سال پہلے اور اس دریافت کو مغرب میں روشناس کروانے والے ولیم ہاوے(William Harwey) سے ١٠٠٠(ایک ہزار) سال پہلے ہوا تھا۔ تقریباً تیرہ صدیوں پہلے یہ معلوم ہوا کہ آنتوں کے اندر ایسا کیا کچھ ہوتا ہے۔ جو نظام ہاضمہ(Digestive System) میں انجام پانے والے افعال کے ذریعہ دیگر جسمانی اعضاء کی نشوونما کی ضمانت فراہم کرتا ہے۔ قرآن پاک کی ایک آیت مبارکہ جو دودھ کے اجزاء کے ماخذ کی وضاحت کرتی ہے، اس تصور کے عین مطابقت میں ہے۔
مذکورہ بالا تصور کے حوالہ سے آیت قرآنی کو سمجھنے کے لیے یہ جاننا اہم ہے کہ آنتوں میں کیمیائی تعاملات (chemical reaction) واقع ہوتے ہیں اور یہ کہ آنتوں ہی سے ہضم کردہ غذا سے اخذ کیے ہوئے مادے ایک پیچیدہ نظام سے گزر کر دوران خون میں شامل ہوتے ہیں۔ کھبی وہ (مادوں )کو تمام اعضاء تک پہنچاتا ہے جن میں دودھ پیدا کرنے والے (چھاتیوں کے ) غدود بھی شامل ہیں۔
سادہ الفاظ میں یہ کہا جا سکتا ہے کہ آنتوں میں موجود غذا کے بعض مادے آنتوں کی دیوار سے سرایت کرتے ہوئے خون کی نالیوں (Vessels)میں داخل ہو جاتے ہیں اور پھر خون کے راستے یہ دوران خون کے ذریعے کئی اعضا تک جا پہنچتے ہیں۔ یہ فعلیاتی تصور مکمل طور پر لازماً ہماری گرفت میں آجائے گا۔ اگر ہم قرآن پاک کی درج ذیل آیات مبارکہ کو سمجھنے کی کوشش کریں گے۔

﴿وَإِنَّ لَكُمۡ فِی ٱلۡأَنۡعَـٰمِ لَعِبۡرَةࣰۖ نُّسۡقِیكُم مِّمَّا فِی بُطُونِهِۦ مِنۢ بَیۡنِ فَرۡثࣲ وَدَمࣲ لَّبَنًا خَالِصࣰا سَاۤىِٕغࣰا لِّلشَّـٰرِبِینَ﴾ [النحل ٦٦]
ترجمہ:اور تمهارے لیے مویشیوں میں بھی ایک سبق موجود ہے۔ ان کے پیٹ سے گوبر اورخون کے درمیان سے ہم تمھیں ایک چیز پلاتے ہیں، یعنی خالص دودھ، جو پینے والوں کے لیے نہایت خوشگوار ہے۔

﴿وَإِنَّ لَكُمۡ فِی ٱلۡأَنۡعَـٰمِ لَعِبۡرَةࣰۖ نُّسۡقِیكُم مِّمَّا فِی بُطُونِهَا وَلَكُمۡ فِیهَا مَنَـٰفِعُ كَثِیرَةࣱ وَمِنۡهَا تَأۡكُلُونَ﴾ [المؤمنون ٢١]]
ترجمہ:۔ اور حقیقت یہ ہے کہ تمھارے لیے مویشیوں میں بھی ایک سبق ہے۔ ان کے پیٹوں میں جو کچھ ہے اسی میں ایک چیز (یعنی دودھ )ہم تمھیں پلاتے ہیں اور تمھارے لیے ان میں بہت فائدہ بھی ہیں۔ ان میں سے بعض کو کھاتے ہو۔
١٤٠٠ سال قبل، قرآن پاک کی فراہم کردہ یہ وضاحت جو گائے میں دودھ کے پیدا ہونے کے حوالے سے ہے، حیرت انگیز طور پر جدید فعلیات (physiology) سے بھر پور انداز میں ہم آہنگ ہے جس نے اس حقیقت کو حال ہی میں دریافت کیا ہے۔

18- بلندی پر سانس کی تنگی

 جس زمانے میں قرآن مجید نازل ہوا تو لوگوں کا خیال تھا کہ جو شخص بلندی کی طرف جائے گا اسے زیادہ تازہ ہوا، زیادہ فرحت اور خوشی حاصل ہوگی، لیکن جدید دور میں جب انسان نے ہوائی جہاز ایجاد کیا اور وہ تیس چالیس ہزار فٹ کی بلندی پر  پرواز کرنے لگا تو اسے پتہ چلا کہ بلندی پر جاتے ہوئے نسبتا کم آکسیجن مہیا ہوتی ہے اور سانس لینے میں بہت دشواری پیش آتی ہے۔ اس شدید گھٹن سے بچنے کے لئے ہوائی جہازوں میں مصنوعی آکسیجن لئے جانے کا انتظام کیا جاتا ہے۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں اس قدر بلندی پر جانے کا تصور نہ تھا نہ آکسیجن اور کاربن ڈائی آکسائیڈ کا لیکن قرآن مجید میں یہ آیت ہمیں حیرت میں ڈال دیتی ہے۔

﴿فَمَن یُرِدِ ٱللَّهُ أَن یَهۡدِیَهُۥ یَشۡرَحۡ صَدۡرَهُۥ لِلۡإِسۡلَـٰمِۖ وَمَن یُرِدۡ أَن یُضِلَّهُۥ یَجۡعَلۡ صَدۡرَهُۥ ضَیِّقًا حَرَجࣰا كَأَنَّمَا یَصَّعَّدُ فِی ٱلسَّمَاۤءِۚ " (الأنعام ١٢٥)
ترجمہ: پس ( یہ حقیقت ہے) کہ اللہ جسے ہدایت بخشنے کا ارادہ رکھتا ہے اس کا سینہ اسلام کے لیے کھول دیتا ہے اور جسے گمراہ کرنے کا ارادہ کرتا ہے اس کا سینہ تنگ اور گھٹا ہوا کر دیتا ہے گویا وہ آسمان پر چڑھ رہا ہے (بلندی کو جارہا ہے)۔

 19- سورج روشنی کا منبع اور چاند محض روشن ہے

 یہ بات جدید سائنسی دور میں معلوم ہو سکی ہے کہ چاند سورج کی روشنی کو منعکس کرتا ہے، تاہم اس کا اشارہ قرآن مجید میں بھی ملتا ہے وہ اس طرح کہ چاند کو روشن تو کہا گیا ہے لیکن روشنی کا منبع یا چراغ قرار نہیں دیا گیا۔ صرف سورج کے لیے چراغ بلکہ گرم روشن چراغ سراجا وھاجا کے الفاظ استعمال کیے گئے ہیں اور مزے کی بات یہ ہے کہ لفظ "سراج"  صیغہ واحد میں استعمال ہوا ہے۔اگر چاند کی بھی وہی پوزیشن ہوتی ہے جو سورج کی ہے اور وہ بھی شعلہ فگن چراغ ہوتا تو سراجا کے بجائے "سراجین" یعنی دو چراغ کے الفاظ استعمال کیے جاتے۔ اس سے صاف پتہ چلتا ہے کہ یہ قرآن مجید کے نزدیک چاند روشن تو ہے لیکن روشنی کا منبع نہیں ہے۔ مندرجہ ذیل آیتیں قابل غور ہیں۔ 

﴿تَبَارَكَ ٱلَّذِی جَعَلَ فِی ٱلسَّمَاۤءِ بُرُوجࣰا وَجَعَلَ فِیهَا سِرَ ٰ⁠جࣰا وَقَمَرࣰا مُّنِیرࣰا﴾ [الفرقان ٦١]
ترجمہ: وہ ذات بڑی بابرکت ہے جس نے آسمان میں برج بنائے اور اس میں ایک چراغ (سورج) اور ایک چمکتا ہوا چاند بھی بنایا۔

وَبَنَیۡنَا فَوۡقَكُمۡ سَبۡعࣰا شِدَادا وَجَعَلۡنَا سِرَاجࣰا وَهَّاجࣰا (النبأ ١٢-١٣)
 ترجمہ :اور ہم نے تمہارے اوپر سات مضبوط آسمان بنائے اور ایک نہایت روشن اور گرم چراغ پیدا کیا-
 سورۃ الفرقان میں چاند کو ایک چمکتا ہوا آسمانی جسم قمرا منیرا قرار دیا گیا ہے جس سے روشنی منعکس ہوتی ہے۔ آیت اور الفاظ کے اسلوب سے صاف پتا چلتا ہے کہ چاند کو روشن تو کہا گیا ہے مگر روشنی کا منبع و مصدر قرار نہیں دیا گیا، اس کے برعکس سورج کو ایک چراغ (سراج) کہا گیا ہے اور سورۃ النبأ  میں اسے ایک شعلہ فگن یا نہایت گرم اور روشن چراغ (سراجا وہاجا) قرار دیا گیا ہے۔ انہیں آیات کے پیش نظر موریس بوکائے لکھتے ہیں: قرآن میں کوئی ایسی بات نہیں ہے جو ان معلومات کی تردید کرتی ہو جو ہمیں آج ان اجرام سماوی کے بارے میں حاصل ہیں۔

 20-کم سے کم مدت حمل کتنی؟
 جنین کی پیدائش کی مدت نو ماہ شمار کی جاتی ہے مگر دور جدید میں سائنسی تحقیقات نے بیان کیا ہے کہ بچہ ماں کے پیٹ میں چھ ماہ کی مدت  گزارنے کے بعد صحیح سالم پیدا ہو سکتا ہے اور اس کے بعد زندگی بسر کر سکتا ہے۔ گویا جدید سائنسی نقطہ نگاہ سے جنین کی پیدائش کے لیے کم سے کم مدت نو ماہ کے بجائے چھ ماہ ہے۔ اب آئیے دیکھیں کہیں یہی بات قرآن مجید نے بالکل صراحت کے ساتھ چودہ صدیاں قبل بیان تو نہیں کر  دی ہے؟  
تفسیر ابن کثیر میں ایک اہم واقعہ بیان کیا گیا ہے اور وہ یہ کہ ایک صاحب سیدنا عثمان رضی اللہ تعالی عنہ کی ہاں شکایت لے کر آئے کہ سس کی شادی کو صرف چھ ماہ ہوئے ہیں اور اس کی بیوی کے ہاں بیٹا پیدا ہو گیا ہے ۔ بیوی کو اصرار تھا کہ بچہ اس کے خاوند ہی کا ہے حرامی نہیں، لیکن اس کا خاوند اور خود امیر المؤمنین عورت کی بات کے قائل نہ ہوئے۔ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ اس عورت کو سزا سنانے ہی والے تھے کہ سیدنا علی رضی اللہ تعالی عنہ آپہونچے اور انہوں نے ازروئے  قرآن فیصلہ دیا کہ بچہ عورت کے خاوند ہی کا ہے اور عورت کو باعزت بری کر دینا چاہیے کیوں کہ قرآن کہتا ہے 

﴿وَوَصَّیۡنَا ٱلۡإِنسَـٰنَ بِوَ ٰ⁠لِدَیۡهِ إِحۡسَـٰنًاۖ حَمَلَتۡهُ أُمُّهُۥ كُرۡهࣰا وَوَضَعَتۡهُ كُرۡهࣰاۖ وَحَمۡلُهُۥ وَفِصَـٰلُهُۥ ثَلَـٰثُونَ شَهۡرًاۚ } [الأحقاف ١٥]
ترجمہ : ہم نے انسان کو اپنے والدین کے ساتھ بھلائی کرنے کا حکم دیا۔ اس کی ماں نے اس کو تکلیف سے پیٹ میں رکھا اور تکلیف ہی سے جنا۔ اس کا پیٹ میں رہنا اور اس کا دودھ چھڑانا 30 ماہ کی مدت ہے۔

 "وَٱلۡوَ ٰ⁠لِدَ ٰ⁠تُ یُرۡضِعۡنَ أَوۡلَـٰدَهُنَّ حَوۡلَیۡنِ كَامِلَیۡنِۖ لِمَنۡ أَرَادَ أَن یُتِمَّ ٱلرَّضَاعَةَۚ" (البقرة ٢٣٣)
ترجمہ: مائیں اپنی اولاد کو پورے دو سال دودھ پلائیں-یہ حکم اس شخص کے لئے ہے جو دودھ پلانے کی مدت پوری کرنا چاہے۔
پہلی آیت سے معلوم ہوا کہ حمل کی مدت اور دودھ پلانے کی مدت کا مجموعہ ڈھائی برس ہے۔ دوسری آیت سے معلوم ہوا کہ دودھ پلانے کی مدت دو برس ہے۔ یوں حمل کی مدت خود بخود معلوم ہوگئی۔ ڈھائی برس میں سے دو برس گھٹا دیں باقی چھ ماہ حمل کی کم ازکم مدت ہے۔
----------------------------------------------

Comments

Popular posts from this blog

ہم ذکاة كيسے ادا کریں؟

قربانی کے اجر کو برباد کرنے سے بچیں

نیکیوں کا موسم بہار