ہم ذکاة كيسے ادا کریں؟
ہم زکاة كيسے ادا کریں؟
تحریر: وسیم احمد سنابلی مدنی
زکوۃ اسلام کے پانچوں ارکان میں سے ایک رکن ہے جس کا ذکر قرآن کریم میں بہت سے مقامات پر نماز کے ساتھ کیا گیا ہے۔ چنانچہ جو شخص اس کی فرضیت کا علم ہونے کے بعد انکار کرتا ہے تو وہ کافر ہے اور اسلام سے خارج ہے۔ جس شخص نے بخل کیا یا اس میں کمی کی تو وہ ایسے ظالموں میں سے ہے جس کے لیے سخت سزا اور عذاب کی وعید وارد ہے۔
:جن چیزوں میں زکوۃ واجب ہے
نمبر1 : زمین سے پیدا ہونے والی چیزیں : نصاب پانچ وسق جو کہ 612 کلو گرام کے برابر ہے، اگر اس مقدار سے کم غلہ پیدا ہوا ہے تو اس میں زکوٰۃ نہیں ہے، اگر پیدا شدہ غلہ نصاب کی مقدار کو پہنچ جائے تو اس کی دو صورتیں ہیں :(۱) وہ غلہ جو بارش یا چشموں کے پانی سے سیراب ہو کر پیدا ہوا ہو تو اس میں دسواں حصہ زکوۃ ہے مثلا اگر بیس کنٹل پیدا ہوا ہے تو دو کنٹل زکاة ادا کرے.(٢) وہ غلہ جو رہٹ یا ٹیوب ویل وغیرہ سے سینچائی کے بعد پیدا ہوا ہے تو اس میں بیسواں حصہ بطور زکوۃ ادا کرے۔ مثلا اگر بیس کنٹل گیہوں ہے تو اس میں سے ایک کنٹل زکاة دینی ہوگی۔
واضح رہے کہ زرعی پیداور پر سال گزرنا ضروری نہیں بلکہ وہ جیسے ہی حاصل ہوگی اس کی زکاة فورا ادا کرنی ہوگی۔
مسئلہ: تازہ استعمال ہونے والے پھلوں اور سبزیوں پر زکاة نہیں ہے مگر یہ کہ ان کی تجارت کی جائے۔ تجارت کی صورت میں اگر انکی قیمت نصاب زکاة کو پہونچ جائے اور وہ سال بھر اس کے پاس رہے تو اس کا ڈھائی فیصد ادا کرنا ہوگا۔
نمبر ۲-سونا و چاندی: سونے کا نصاب بیس دینار جو کہ پچاسی (۸۵)گرام کے برابر ہے چنانچہ اگر سونے کا وزن پچاسی گرام یا اس سے زیادہ ہے اور اس پر مکمل سال گزر جائے تو اس میں سے اڑھائی فیصد بطور زکاة ادا كرے۔ اگر روپئے سے ادا کرنا چاہتا ہے تو ادائیگی کے وقت سونے کا جو مارکیٹ ریٹ ہے اس سے اپنے سونے کی قیمت مقرر کرکے اس میں سے ڈھائی فیصد بطور زکوۃ ادا کرے ۔ مثال کے طور پر کسی کے پاس سو گرام سونا ہے اور ہندوستان میں اس وقت فی گرام مارکیٹ قیمت 6000 ہزار روپے ہے تو اس لحاظ سے سو گرام کی قیمت 6 لاکھ روپۓ ہوئی، اس کا ڈھائی فیصد 15ہزار زکاۃ ادا کرنی ہوگی ۔
چاندی : اس کا نصاب پانچ اوقیہ ہے جو 595 گرام کے برابر ہے اگر چاندی اس مقدار میں ہو یا اس سے زیادہ ہو اور اس پر مکمل سال گذر چکا ہو تو اس میں سے ڈھائی فیصد ذکاة نكالنی ہوگی۔ اگر روپئے کے ذریعہ ادا کرنا چاہتا ہے تو مارکیٹ ریٹ سے اپنی چاندی کی قیمت لگائے اور اس میں سے ڈھائی فیصد ذکاة ادا کرے۔ مثلا کسی کے پاس ایک کلو چاندی ہے اور اس کی مارکیٹ ریٹ 70 ہزار ہے تو اس کا ڈھائی فیصد ایک ہزار سات سو پچاس روپئے بطور زکات ادا کرے گا۔
نمبر ۳ - کرنسی وغیرہ یا روپیہ پیسہ: اگر روپئے سونے یا چاندی کے نصاب کے برابر یا اس سے زیادہ ہو اور اس پر مکمل سال گزر جائے تو اس میں سے ڈھائی فیصد زکوۃ نکالی جائے گی۔البتہ سونے یا چاندی میں سے کس کو نصاب کے لئے اپنائے، اس بارے میں علماء کے مابین اختلاف ہے کچھ علماء نے سونے کے نصاب کا اعتبار کرنے کو ترجیح دی ہے انکی دلیل ہے کہ کرنسی کا معاملہ سونے کے ساتھ جڑا ہوا ہے جبکہ کچھ دیگر علماء چاندی کے نصاب کا اعتبار کرنے کو افضل قرار دیتے ہیں ، ان کی دلیل ہے کہ یہ فقراء اور مساکین کے حق میں زیادہ بہتر ہے،دلائل کا بغائر مطالعہ کرنے کے بعد میرے نزدیک پہلا قول راجح ہے۔
نمبر ۴- تجارتی اموال: اس سے مراد زمین، جانور، سامان خوردونوش اور گاڑیوں وغیرہ جیسی چیز ہے جو تجارتی مقصد سے تیار کی جائے چنانچہ سال ختم ہونے پر اس کا مالک اس مال کی قیمت کا اندازہ لگائے، اسی طرح جنرل اسٹور ، مولس، موٹر ہاؤسز اور اسپیئرپارٹس وغیرہ کے مالکان کو چاہیے کہ وہ اپنی دکانوں میں سے موجود سامان کی ہر چھوٹی بڑی چیز کا شمار کرتے ہوئے حساب لگائیں اور جو نقدی کرنسی رہی ہو اس میں شامل کرلیں اس طرح اس کا جو قرضہ قابل واپسی ہو اسے بھی حساب میں شامل کرلیں اور اگر وہ خود مقروض ہو تو قرضے کی رقم نکال کر باقی تمام رقم کا ڈھائی فیصد بطور زکاة ادا كریں۔
واضح رہے کہ صنعتی آلات اور مشینری کی اصل قیمت پر تو زکات فرض نہیں، البتہ ان کی آمدنی اگر زکات کے نصاب کو پہونچ جائے اور اس پر سال بھی گذر جائے تواس سے زکات نکالنا ضروری ہوگا۔ اور یہی حکم کرائے پر دئے ہوئےمکانوں، دوکانوں اور گاڑیوں وغیرہ کا بھی ہے کہ ان کی اصل قیمت پر زکات نہیں ہے بلکہ کرائے پر ہے بشرطیکہ کرایہ نصاب کو پہونچ جائے اور اس پر سال بھی گذر جائے تو اس کا ڈھائی فیصد ادا کرنا ہوگا۔
تنخواہوں سے زکوۃ نکالنے کا طریقہ : ایک مسلمان کی جانب سے ماہانہ تنخواہ کی بچت میں سے زکوۃ نکالنے کا آسان اور محفوظ ترین طریقہ یہ ہے کہ ماہانہ تنخواہ سے کی جانے والی بچت جس مہینہ میں زکوۃ کے نصاب کے برابر ہو جائے تو اس ماہ سے لے کر ایک اسلامی ہجری سال کے بعد جتنی بھی رقم آپ کے پاس ہے، ساری رقم کی زکوۃ ادا کریں۔ حتی کی سب سے آخری مہینہ میں کی جانے والی بچت کو بھی زکوۃ کے لیے شامل کرے، جس کو آپ نے ابھی چند دن پہلے ہی بچت کھاتے میں شامل کیا ہے، چنانچہ جس نصاب پر ایک سال کی زکاۃ واجب تھی اس کی زکات آپ نے اداکر دی ہے اور اس کے بعد والے مہینوں میں آپ کی جمع شدہ بچت کی ذکاة آپ نے قبل از وقت ادا کردی ہے اور زکوۃ وقت سے پہلے ادا کرنا جائز ہے اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔
تنخواہوں سے زکوۃ نکالنے کا طریقہ : ایک مسلمان کی جانب سے ماہانہ تنخواہ کی بچت میں سے زکوۃ نکالنے کا آسان اور محفوظ ترین طریقہ یہ ہے کہ ماہانہ تنخواہ سے کی جانے والی بچت جس مہینہ میں زکوۃ کے نصاب کے برابر ہو جائے تو اس ماہ سے لے کر ایک اسلامی ہجری سال کے بعد جتنی بھی رقم آپ کے پاس ہے، ساری رقم کی زکوۃ ادا کریں۔ حتی کی سب سے آخری مہینہ میں کی جانے والی بچت کو بھی زکوۃ کے لیے شامل کرے، جس کو آپ نے ابھی چند دن پہلے ہی بچت کھاتے میں شامل کیا ہے، چنانچہ جس نصاب پر ایک سال کی زکاۃ واجب تھی اس کی زکات آپ نے اداکر دی ہے اور اس کے بعد والے مہینوں میں آپ کی جمع شدہ بچت کی ذکاة آپ نے قبل از وقت ادا کردی ہے اور زکوۃ وقت سے پہلے ادا کرنا جائز ہے اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔
شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ کہتے ہیں: ماہانہ تنخواہ میں سے زکاة دینے کے لئے اچھا، بہترین اور آسان ترین راستہ یہ ہے کہ آپ کسی ماہ کو مقرر کرلیں اور اس ماہ میں اپنے سارے مال کی زکاة دے دیں ۔ مثال کے طور پر ایک انسان کی عادت ہے کہ وہ ہر رمضان میں زکوۃ دیتا ہے تو وہ ماہ رمضان میں اپنے پاس موجود سارے مال کی زکوٰۃ نکال دیتا ہے حتی کہ شعبان میں حاصل ہونے والی رقم کی بھی زکوۃ دے دیتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ طریقہ بہت اچھا ہے اور انسان اس طریقے کی بنا پر زکاة کے معاملے میں پرسکون رهتا هے، اس سے پرسکون طریقہ ہمیں معلوم نہیں ہے۔ اور اگر کوئی یہ کہے کہ شعبان میں ملنے والی تنخواہ پر تو ابھی کچھ ہی دن گزرے ہیں تو ہم اس سے کہیں گے اس رقم کی زکوۃ ایڈوانس ادائیگی میں شمار ہوگی۔ اور انسان اپنے مال کی زکاة ايك يا دو سال قبل بھی ادا سکتا ہے، چنانچہ ہم کہیں گے کہ بہتر یہ ہے کہ انسان کسی بھی ایک ماہ کو متعین کرلے اور اس مہینہ میں اپنے سارے مال کو جمع کرکے اس کی زکاة ادا کردے۔ چاہے کچھ مال پر سال گزر چکا ہو اور کچھ پر ابھی سال گزرنا باقی ہوں ۔(مجموع فتاوی ورسائل ابن عثیمین۱۸/۱۷۵۔
نمبر ۵۔ مویشی: (۱)اونٹ : اونٹوں کا کم از کم نصاب پانچ اونٹ ہیں جن کی طرف سے ایک بکری زکات کے طور پر نکالنا ہوگا (۲) گائے : گائے کا کم از کم نصاب تیس گائے ہیں ، جس کے لیے ایک سال کے گائے کا بچہڑا زکات کے طور پر نکالا جائے گا ۔ (۳) بکری : بکری کا کم ازکم نصاب چالیس بکریاں ہیں، جن میں سے ایک بکری بطور زکوۃ نکالی جائے گی۔
Mob: 7503551662
Comments
Post a Comment