سکون قلب کا حصول کیسے؟

سکون قلب کا حصول کیسے؟
تحریر: وسیم احمد سنابلی مدنی

موجودہ زمانہ میں انسان کو آرام و آسائش کے وہ وسائل  اور سامان میسر ہیں جن کا سو سال قبل ان کے آباء و اجداد نے تصور تک نہ کیا تھا۔ ماکولات و مشروبات کی ایسی لمبی فہرست جن کا شمار بھی مشکل ہے، رہنے کے لئے عالیشان بنگلے، فلک بوس عمارتیں، ایرکنڈیشن کمرے، نرم و گداز بستر، ٹھنڈے پانی کے لیے فریج اور گرم پانی کے لیے گیزر ، سفر و سیاحت کے لئے ہوا سے باتیں کرتی ہوئی چمچماتی کاریں، ٹرینیں اور ہوائی جہاز جن کے ذریعے دنوں کا سفر چند گھنٹوں میں بآسانی طے کیا جا سکتا ہے۔ ذرائع ابلاغ و ترسیل کے لیے عمدہ سے عمدہ موبائل فون جن کے ذریعے دنیا کے کسی کونے میں بیٹھے ہوئے شخص تک اپنی بات، افکار ونظریات اور تصویریں سیکنڈوں میں پہنچایا سکتا ہے۔ مگر ان تمام سہولتوں اور آسائشوں کے باوجود آج کا انسان سکون و اطمینان اور حقیقی راحت وآرام سے محروم ہے۔ بےچینی، پریشانی اور اضطرابی کیفیت سے دوچار ہے۔ چنانچہ اس نے سکون اور اطمینان کی تلاش میں مختلف طریقے اپنائے مگر کہیں اسے سکون میسر نہ ہو سکا۔ کسی نے سمجھا کہ راحت و خوشی تخت و تاج اور  عہدے ومناصب کے حصول میں ہے مگر اقتدار ملنے کے بعد پتہ چلا کہ یہاں تو ایک لمحہ کے لئے بھی سکون میسر نہیں ہے۔کسی نے سوچا وہ زیادہ سے زیادہ مال و دولت جمع کرکے سکون اور اطمینان پالے گا مگر یہاں بھی اسے ناکامی ہاتھ لگی۔ بعض لوگوں نے سیر و تفریح میں سکون تلاش کرنے کی کوشش کی اور اس کے لئے انہیں نہ جانے کن کن ملکوں کی خاک چھاننی پڑی مگر سکون پھر بھی ہاتھ نہ آیا۔ کتنے بدنصیب تو ایسے بھی ہوئے ہیں جنہوں نے موسیقی، شراب اور نیند آور گولیوں اور حتی کہ غلط کاریوں میں بھی سکون تلاش کرنے کی کوشش کی تاہم جب اس عارضی تفریح کا اثر ختم ہوا تو پہلے سے زیادہ غمگین ہو گئے۔ 
   غرضیکہ کوئی عیش و عشرت کو سکون سمجھتا ہے تو کسی نے رسالوں اور کتابوں کے پڑھنے میں سکون تلاش کرنے کی کوشش کی، کسی نے باغات جاکر درختوں پودوں اور پھولوں کے رنگ و بو میں سکون تلاش کرنا چاہا تو کسی نے کھیل کود اور جدید تفریحی آلات کے ذریعہ سکون و اطمینان پانے کی کوشش کی۔ تاہم انسان نے سکون کے حصول کے لیے جتنے طریقے آزمائے ان میں سے کسی طریقہ میں وقت برباد ہوا، کہیں پیسہ ضائع ہوا، اور کہیں ایمان اور اخلاق کی خرابی ہوئی اور کہیں صحت بھی کھو دیا۔ 
    آج کا انسان اگر قرآن پاک کی صرف سورۂ رعد کی آیت نمبر 28 پڑھ لی تو اسے سکون اور اطمینان کا راز پتہ چل جائے گا۔ارشاد باری تعالیٰ ہے:

"ٱلَّذِینَ ءَامَنُوا۟ وَتَطۡمَىِٕنُّ قُلُوبُهُم بِذِكۡرِ ٱللَّهِۗ أَلَا بِذِكۡرِ ٱللَّهِ تَطۡمَىِٕنُّ ٱلۡقُلُوبُ"
(الرعد ٢٨)
"جو لوگ ایمان لائے اور ان کے دلوں کو اللہ کی یاد سے اطمینان نصیب ہوتا ہے۔ خوب سمجھ لو کہ اللہ کے ذکر سے ہی دلوں کو اطمینان ہوتا ہے "

دوسری جگہ ارشاد ہے :

"أَلَاۤ إِنَّ أَوۡلِیَاۤءَ ٱللَّهِ لَا خَوۡفٌ عَلَیۡهِمۡ وَلَا هُمۡ یَحۡزَنُونَ (٦٢) ٱلَّذِینَ ءَامَنُوا۟ وَكَانُوا۟ یَتَّقُونَ (٦٣) لَهُمُ ٱلۡبُشۡرَىٰ فِی ٱلۡحَیَوٰةِ ٱلدُّنۡیَا وَفِی ٱلۡـَٔاخِرَةِۚ" (يونس)
"کہ یاد رکھو اللہ کے دوستوں پر نہ کوئی اندیشہ ہے اور نہ وہ غمگین ہوتے ہیں وہ ہیں جو ایمان اور پرہیز رکھتے ہیں ان کے لئے دنیاوی زندگی اور آخرت میں بھی خوش خبری ہے"
اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے:

"ما اجتَمَعَ قَومٌ يَذكُرون اللهَ إلّا حَفَّتْهمُ الملائكةُ، وتَغَشَّتْهمُ الرَّحْمةُ، ونَزَلَتْ عليهم السَّكينةُ، وذَكَرَهمُ اللهُ فيمَن عِندَه،" [البخاري ١١٤٥]

"جو لوگ بھی اللہ کا ذکر کرنے بیٹھے ہیں فرشتے انہیں گھیر لیتے ہیں اور رحمت انہیں ڈھانپ لیتی ہے اور سکینہ (اللہ کی خاص مدد)ان پر نازل ہوتی ہے اور اللہ ان کا ذکر ان لوگوں میں کرتا ہے جو اس کے پاس ہوتے ہیں "  

   پس قرآن اور حدیث سے یہ بات ثابت ہوگئی کہ سکون مادی چیزوں سے حاصل نہیں ہو سکتا بلکہ سکون قلب صرف اللہ کے ذکر ہی سے حاصل ہو سکتا ہے۔اللہ کے ذکر سے مراد ہے کہ بندہ اٹھتے بیھٹتے چلتے پھرتے اللہ کی حمد وثنا اور عظمت و کبریائی بیان کرتا رہے، اور جب اللہ کو یاد کرے تو اپنی زندگی کے تمام فیصلوں میں بھی اس کے احکام کو مقدم رکھے۔ ہر کام میں اس کی منشا کا خیال کرے۔ گویا اصل مقصود یہ ہے کہ انسان ہمہ وقت اللہ تعالی کی فرماں برداری میں رہے اور دنیاوی کاموں کی انجام دہی میں رب اعلیٰ کو اپنے دل میں بسائے رکھے، اس کے حدود اور احکامات کا پابند رہے۔اور تمام فرائض اور واجبات کی ادائیگی سمیت اپنی زندگی اسلامی اصولوں کے مطابق گزارے۔
اگر انسان یہ عہد کر لے تو یقینا وہ دیکھے گا کہ اللہ کی رحمت کس طرح نازل ہوتی ہے ۔کتنا اطمینان اور سکون اسے ملتا ہے ۔گھر جنت کا نقشہ پیش کرنے لگے گا۔رُوکھی سوُکھی روٹی میں وہ لذت نصیب ہوگی جو امراء کو مرغن غذاؤں میں نصیب نہیں ہوتی اور گھاس کے بستر پر ایسی پر کیف نیند آئے گی جو اللہ کے باغیوں کو حریرو مخمل کے بستر پر نہیں آ تی۔

رب کائنات کا فرمان ہے:

مَنۡ عَمِلَ صَـٰلِحࣰا مِّن ذَكَرٍ أَوۡ أُنثَىٰ وَهُوَ مُؤۡمِنࣱ فَلَنُحۡیِیَنَّهُۥ حَیَوٰةࣰ طَیِّبَةࣰۖ وَلَنَجۡزِیَنَّهُمۡ أَجۡرَهُم بِأَحۡسَنِ مَا كَانُوا۟ یَعۡمَلُونَ " [النحل :٩٧]
 "جو شخص بھی نیک عمل کرے گا خواہ وہ مرد ہو یا عورت بشرطیکہ وہ مومن ہو اسے ہم دنیا میں پاکیزہ زندگی بسر کرائیں گے اور آخرت میں ایسے لوگوں کو ان کے اجر  بہترین اعمال کے مطابق بخشیں گے"

وَمَنۡ أَعۡرَضَ عَن ذِكۡرِی فَإِنَّ لَهُۥ مَعِیشَةࣰ ضَنكࣰا وَنَحۡشُرُهُۥ یَوۡمَ ٱلۡقِیَـٰمَةِ أَعۡمَىٰ (١٢٤) قَالَ رَبِّ لِمَ حَشَرۡتَنِیۤ أَعۡمَىٰ وَقَدۡ كُنتُ بَصِیرࣰا (١٢٥) قَالَ كَذَ ٰ⁠لِكَ أَتَتۡكَ ءَایَـٰتُنَا فَنَسِیتَهَاۖ وَكَذَ ٰ⁠لِكَ ٱلۡیَوۡمَ تُنسَىٰ (١٢٦) [سورة طه]

"اور جو میرے ذکر سے منہ موڑے گا اس کے لئے دنیا میں تنگ زندگی ہوگی اور قیامت کے روز ہم اسے اندھا اُٹھائیں گے، وہ کہے گا کہ اے میرے رب! دنیا میں تو میں آنکھوں والا تھا یہاں مجھے اندھا کیوں اٹھایا؟ اللہ فرمائے گا ہاں، اسی طرح تو ہماری آیات کو جب کہ وہ تیرے پاس آئی تھیں تو نے بھلا دیا تھا اسی طرح آج تو بھلایا جا رہا ہے"
             ٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

Comments

Popular posts from this blog

ہم ذکاة كيسے ادا کریں؟

قربانی کے اجر کو برباد کرنے سے بچیں

نیکیوں کا موسم بہار