نیکیوں کا موسم بہار

نیکیوں کا موسم بہار         
تحریر: وسیم احمد سنابلی مدنی
                                   
   جب موسم برسات کی آمد ہوتی ہے اور مانسون کی بارش سے زمین تربتر ہو جاتی ہے تو کسانوں کے چہرے کھل اٹھتے ہیں اور اپنے ہل بیل اور زرعی آلات کے ساتھ اپنے کھیتوں میں پہونچ جاتے ہیں کوئی اسےجوت رہا ہوتا ہے تو کوئی پانی لگا رہا ہوتا تو کوئی مٹی کو نرم اور ہموار کرکے اس میں رو پائی کر رہا ہوتا ہے۔ ہر ایک بھاگ دوڑ کرتا ہوا اپنے کاموں میں مصروف و مگن نظر آتا ہے۔ یہ سب کچھ اس لئے تاکہ اس کی فصل عمدہ اور اچھی ہو۔اور مستقبل میں اسے زیادہ سے زیادہ پیداوار  مل سکے اور اپنے گھر اور گوداموں کو غلے اور اناج سے بھر سکے اور اپنی دنیاوی زندگی کو خوش وخرم بنا سکے۔ 
   یہی حال ایک مومن کا رمضان مبارک کی آمد پر ہوتا ہے، وہ خوشیوں سے بھر جاتا ہے، دل مسرتوں سے لبریز ہوجاتا ہے، اور اعمال صالحہ کے تئیں اس کا عزم اور حوصلہ جوان ہو جاتا ہے کیونکہ رمضان کی شکل میں اسے نیکیوں کا فصل بہار اور موسم برسات نظر آتا ہے جس میں رحمت الہی کے خوشگوار جھونکے اور روح پرور ہوائیں چلتی ہیں، پورے ماحول پر نورانیت کی چادر پھیلی رہتی ہے اور سکینت و طمانینت کے بادلوں کا خیمہ تنا ہوا ہوتا ہے اور رب کی رحمت و فضل کی بارش ہوتی رہتی ہے۔ سرکش شیاطین کو جکڑ کر نیکیوں کی راہیں آسان کردی جاتی ہیں، برائیوں کے راستوں پر رکاوٹیں کھڑی کر دی جاتی ہیں جس کی وجہ سے اچھائیوں پر گامزن رہنا اور گناہوں سے بچنا آسان ہوجاتا ہے۔ نیز اس ماہ میں ایک ایسی عبادت ( روزہ)کی توفیق ہوتی ہے جو صرف اللہ کے لیے ہوتی ہے اس میں کسی طرح کی ریاکاری راہ نہیں پاسکتی، اس لئے اس کا اجر و ثواب بھی اللہ تعالی خود ہی دیں گے جو بے حد و حساب ہوگا اور جس کا کوئی اندازہ نہیں کر سکتا۔
 اس ماہ کی عظمت کے لیے یہی کافی ہے کہ رب کائنات نے اپنی آخری آسمانی کتاب قرآن حکیم کے نزول کے لیے اسے منتخب فرمایا، اور اس ماہ میں ایک ایسی قدر والی رات رکھی جس میں عبادت ہزار مہینوں کی عبادت سے افضل اور بہتر ہے۔ یہ ایک ایسا مہینہ ہے جس میں اللہ تعالی سب سے زیادہ اپنے بندوں کو جہنم سے آزادی کا انعام عطا کرتا ہے اور اپنے بندوں کی مغفرت اور ان کی توبہ اور دعائیں قبول کرتا ہے۔ لہذا ایسے عظیم الشان مہینہ کا پانا یقینا اللہ کی سب سے بڑی نعمت ہے، اس نعمت کی قدرومنزلت کا اندازہ آپ اس بات سے کر سکتے ہیں کہ سلف صالحین رحمہم اللہ 6ماہ تک یہ دعا کرتے تھے کہ اے اللہ ! ہمیں رمضان المبارک کا مہینہ نصیب فرما۔ پھر جب رمضان المبارک کا مہینہ گزر جاتا تو وہ اس بات کی دعا کرتے تھے کہ اے اللہ ہم نے اس مہینہ میں جو عبادات ادا کی ہیں تو انہیں قبول فرما۔
لہذا  ہر مسلمان کو چاہیے کہ اس ماہ کی عظمت اور اس کی قدر و منزلت کو پہچانے اور اپنی دائمی اور ابدی زندگی کی بہتری کے لیے نیکی کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہ دے۔ اور ان مبارک ساعتوں کو سونے اور لہو ولعب میں نہ گنوائے۔

Comments

Post a Comment

Popular posts from this blog

سائنسی انکشافات اور صداقت قرآن کریم (پارٹ-۴)

سکون قلب کا حصول کیسے؟

ہم ذکاة كيسے ادا کریں؟