سائنسی انکشافات اور صداقت قرآن کریم (پارٹ-۳)

سائنسی انکشافات اور صداقت قرآن کریم      
تحریر : وسیم احمد سنابلی مدنی نئی دھلی
(پارٹ-۳)

۸-نشانات انگشت ( Finger Prints)

"أَیَحۡسَبُ ٱلۡإِنسَـٰنُ أَلَّن نَّجۡمَعَ عِظَامَهُۥ بَلَىٰ قَـٰدِرِینَ عَلَىٰۤ أَن نُّسَوِّیَ بَنَانَهُۥ﴾ [القيامة ٣-٤]
ترجمہ:۔ کیا انسان یہ سمجھ رہا ہے کہ ہم اس کی ہڈیوں کو جمع نہ کرسکیں گے؟ کیوں نہیں؟ ہم تو اس کی انگلیوں کی پور پور (finger tips) تک ٹھیک بنادینے پر قادر ہیں۔
کفاراور ملحدین یہ اعتراض کرتے ہیں کہ جب کوئی شخص مرجانے کے بعد مٹی میں مل جاتا ہے اور اس کی ہڈیاں تک بوسیدہ ہو جاتی ہیں تو یہ کیسے ممکن ہے کہ قیامت کے روز اُسکے جسم کا ایک ایک ذرہ دوبارہ یکجا ہو کرپہلے والی( زندہ) حالت میں واپس آجائے ۔ اور اگر ایسا ہوبھی گیا تو روزِ محشراس شخص کی ٹھیک ٹھیک شناخت کیونکر ہو گی؟ اللہ تعالیٰ رب ذوالجلال نے مذکورہ بالا آیات مبارکہ میں اسی اعتراض کا بہت واضح جواب دیتے ہوئے فرمایا ہے کہ وہ ( اللہ تعالیٰ) صرف اسی پر قدرت نہیں رکھتا کہ ریزہ ہڈیوں کو واپس یکجا کر دے۔ بلکہ اس پر بھی قادر ہے کہ ہماری انگلیوں کی پوروں (finger tips) تک دوبارہ سے پہلے والی حالت میں ٹھیک ٹھیک طور لے آئے۔
سوال یہ ہے کہ جب قرآن پاک انسانوں کی انفرادی شناخت کی بات کر رہا ہے تو انگلیوں کی پوروں کا خصوصیت سے تذکرہ کیوں کر رہاہے؟ سرفرانسس گولڈ (Frances Gold) کی تحقیق کے بعد١٨٨٠ء میں نشانات انگشت( finger prints) کو شناخت کے سائنسی طریقے کا درجہ حاصل ہوا۔ آج ہم یہ جانتے ہیں۔ کہ اس دنیا میں کوئی سے بھی دو افراد کی انگلیوں کے نشانات کا نمونہ بالکل ایک جیسا نہیں ہو سکتا۔ حتٰی کہ ہم شکل جڑواں افراد کا بھی نہیں- یہی وجہ ہے کہ آج دنیا بھر میں مجرموں کی شنا خت کے لیے ان کے نشانات ِانگشت ہی استعمال کیے جا تے ہیں۔ کیا کویٔی بتا سکتا ہے کہ آج سے ١٤٠٠سال پہلے کس کو نشانات انگشت کی انفرادیت کے بارے میں معلوم تھا؟ یقینا یہ علم رکھنے والی ذات اللہ تعالیٰ کے سوا اور کسی کی نہیں ہو سکتی تھی۔

٩- جنینی مراحل (Embryological stages) 

وَلَقَدۡ خَلَقۡنَا ٱلۡإِنسَٰنَ مِن سُلَٰلَةٖ مِّن طِينٖ * ثُمَّ جَعَلۡنَٰهُ نُطۡفَةٗ فِي قَرَارٖ مَّكِينٖ * ثُمَّ خَلَقۡنَا ٱلنُّطۡفَةَ عَلَقَةٗ فَخَلَقۡنَا ٱلۡعَلَقَةَ مُضۡغَةٗ فَخَلَقۡنَا ٱلۡمُضۡغَةَ عِظَٰمٗا فَكَسَوۡنَا ٱلۡعِظَٰمَ لَحۡمٗا ثُمَّ أَنشَأۡنَٰهُ خَلۡقًا ءَاخَرَۚ فَتَبَارَكَ ٱللَّهُ أَحۡسَنُ ٱلۡخَٰلِقِينَ *[المؤمنون ١٢-١٤]
ترجمہ:۔ اوریقینا ہم نے انسا ن کو مٹی کے جوہر سے پیدا کیا پھر ہم نے اسے نطفہ بناکر ایک محفوظ جگہ (رحم مادر)میں رکھا۔ پھر ہم نے نطفہ کو خون کا ایک لوتھڑا بنایا۔ پھر لوتھڑا کو گوشت کی بوٹی بنا یا پھرہم نے لوتھڑے کو ہڈیاں بنادیا۔ پھر ہڈیوں کو ہم نے گوشت پہنایا پھر ہم نے اسے ایک نیٔی صورت دے دی۔ برکتوں والا ہے وہ اللہ جو سب سے بہترین پیدا کرنے والا ہے۔
اس آیت میں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ انسان مائع کی حقیر مقدار سے تخلیق کیا گیا جسے امن کی جگہ پر رکھا جاتا ہے۔ مضبوطی سے جمایا ہوا( خوب مستحکم یا ٹھہرایا گیا) جس کے لیے عربی لفظ قرار مکین استعمال ہوا ہے۔ رحم مادر پچھلی جانب سے ریڑھ کے مہروں کے ستوں سے اچھی طرح محفوظ کیا گیا ہوتا ہے جسے کمر کے پٹھے مضبوطی سے سہارا دیتے ہیں۔ جنین ایمنیا ٹک فلویڈ(amniotic fluid) سے بھرے ایمنیاٹک سیک( amniotic sac) سے مزید محفوظ بنایا گیا ہوتا ہے۔ چنانچہ جنین( foetus) کی ایک بہترین محفوظ دینے کی جگہ ہوتی ہے۔ سیال(fluid) کی اس قلیل مقدار کو 'علقہ' میں تبدیل کیا جاتاہے یعنی ایسی چیز جوچپک جاتی ہے۔ اس سے جونک(Leech) جیسی چیز بھی مراد ہے۔ یہ دونوں تعریفیں سائنسی طورپرقابل قبول ہیں کیونکہ بالکل ابتدائی مراحل میں جنین ( رحم مادر کی) دیوار سے چپک جاتاہے اور شکل کے لحاظ سے جونک سے بھی مشابہ ہوتاہے۔ یہ جونک ہی کی طرح رویہ رکھتا ہے ( خون چوسنے والا) اور اپنی خونی رسد ناف کے ذریعے ماں سے حاصل کرتا ہے۔
'علقہ' کا تیسرا مطلب ہے جماہواخون۔ اس علقہ کے مرحلے کے دوران جو حمل کے تیسرے اور چوتھے ہفتے پر محیط ہوتاہے خون بند نالیوں میں جم جاتا ہے چنانچہ جنین جونک کی شکل اختیار کرلیتا ہے۔ آسانی سے دسیتاب ہونے والے اس قرآنی علم کا سائنسی دریافتوں کے لیے انسانی محنت کے ساتھ موازنہ کرلیجئے۔
١٦٧٧ء میں ہیم اور لیون ہک (hamm& leewenhoek) وہ پہلے سائنس دان تھے جنھوں نے ایک خوردبین کے ذریعے اسانی تولیدی خلیوں کا مشاہدہ کیا۔ انکا خیال تھا کہ سپرم کے اندر انسان کا ایک مختصر نمونہ ہوتاہے۔ جو ایک نوزائیدہ بچے کی شکل پانے کے لیے رحم کے اندر نشو ونما پاتا ہے۔ یہ پرفوریشن تھیوری (perforation theory) کے نام سے جانی جاتی تھی۔ جب سائنس دانوں نے دریافت کیا کہ بیضہ (ovum) یعنی مادہ تولیدی) سپرم (sperm) سے جسامت میں بڑا ہوتا ہے توڈی گراف (De Graf)اور دوسرے سائیسندانوں نے سوچاکہ جنین(foetus) ایک چھوٹے نمونے کی شکل میں بیضہ کے اندر موجود ہوتاہے۔ بعد ازاں اٹھارویں صدی میں ماپر چو یئس (Maupertuis) نے مادرپدر دو طرفہ وراثت کا نظریہ پیش کیا۔
'علقہ' ' مُضغہ' میں تبدیل ہوتاہے۔ جس کا مطلب ہے ایسی چیز جوچبائی گئی ہو( جس پر دانتوں کے نشان ہو) اورایسی چیز بھی جو نرم چپکے والی ہو اور گم(gum)کی طرح منہ میں رکھی جا سکے۔ یہ دونوں وضاحتیں سائینسی طورپردرست ہے پروفیسر کیتھ مور( keith moore) نے پلاسٹرٔسیل(plaster seal) کا ایک ٹکڑا لیا اور اسے جنین کے ابتدائی مرحلے کی جسامت اور شکل دی اور اسے مضغہ بنانے کے لیے دانتوں کے درمیان چبایا۔ انہوں نے اس کا تقابل جنین کے ابتدائی مرحلے کی تصاویر سے کیا۔ دانتوں کے نشان سومائٹس(somites) سے مشابہ تھے جو ریڑھ کی ہڈی کی ابتدائی بناوٹ ہے۔ یہ مضغہ ہڈیوں ( عظام) میں تبدیل ہوتاہے ہڈیاں سالم گوشت یا پٹھوں ( لحم) سے لپٹی ہوتی ہیں۔ پھر اللہ تعالی اس کو ایک دوسری تخلیق میں ڈال دیتاہے۔ پروفیسر مارشل جانسن(Marshal Johnson) جو امریکا کے سرکردہ سائنس دانوں میں سے ایک ہیں اور اناٹومی ڈیپارٹمنٹ کے سربراہ اور تھا مس جیفر سن یونیورسٹی فایلاڈلفیا امریکا کے ڈینیل انسٹی ٹیوٹ کے ڈائریکٹر ہیں۔ ان سے علم الجنین (embroyology) سے متعلق قرآنی آیات پر تبصرہ کرنے کے لیے کہا گیا۔ ابتدا میں انہوں نے کہا کہ جنین کے مراحل سے تعلق رکھنے والی قرآنی آیات محض اتفاق نہیں ہو سکتی۔ ممکن ہے کہ محمد ۖکے پاس کوئی طاقت ورخورد بین ہو۔ یہ یاد دلانے پرکہ کہ قرآن چودہ سو سال پہلے نازل ہوا اور خوردبینیں پیغمبر محمدۖ کے زمانے سے کئی صدیاں بعد ایجاد کی گئیں۔ پروفیسر جانسن ہنسے اور یہ تسیلم کیا کہ ایجاد ہونے والی اولین خورد بین بھی دس گنا سے زیادہ بڑی شبیہ(image) دکھانے کے قابل نہیں تھی اور ا سکی مدد سے واضح ( خردبینی) منظر بھی دیکھا نہیں جاسکتا تھا۔ بعد ازاں انہوں نے کہا: سردست مجھے اس تصوّرمیں کوئی تنازع د کھائی نہیں دیتا کہ جب محمدۖ نے قرآن پاک کی آیات پڑھیں تو اُس وقت یقینا کوئی آسمانی ( الہامی ) قوت بھی ساتھ میں کارفرما تھی ۔
ڈاکٹر کیتھ مور کا کہنا ہے کہ جنینی نشو ونما کے مراحل کی وہ درجہ بندی جو آج ساری دنیا میں رائج ہے آسانی سے سمجھ میں آنے والی نہیں ہے کیونکہ اس میں ہر مرحلے کو ایک عدد( نمبر) کے ذریعے شناخت کیا جاتا ہے۔ مثلاً مرحلہ نمبر1، مرحلہ نمبر2،وغیرہ۔ دوسری جانب قرآن پاک نے جنینی مراحل کی جو تقسیم بیان فرمائی ہیں، اس کی بنیاد جداگانہ اور آسانی سے شناخت کے قابل حالتوں یا ساختوں پر ہیں۔ یہی وہ مراحل ہیں جن سے کوئی جنین مرحلہ وار انداز میں گزرتا ہے۔ علاوہ ازیں یہ حالتیں ( ساختیں) بھی قبل ازولادت نشو و نما کے مختلف مراحل کی علمبردا رہیں اور ایسی سائنسی توضیحات فراہم کرتی ہیں۔ جو نہایت عمدہ اور قابل فہم ہونے کے ساتھ ساتھ عملی اہمیت بھی رکھتی ہیں۔ رحم مادرمیں انسانی جنین کی نشو و نما کے مختلف مراحل درج ذیل آیات مبارکہ میں بھی بیان فرمایئے گئے ہیں:

"أَلَمۡ يَكُ نُطۡفَةٗ مِّن مَّنِيّٖ يُمۡنَىٰ* ثُمَّ كَانَ عَلَقَةٗ فَخَلَقَ فَسَوَّىٰ * فَجَعَلَ مِنۡهُ ٱلزَّوۡجَيۡنِ ٱلذَّكَرَ وَٱلۡأُنثَىٰٓ * أَلَيۡسَ ذَٰلِكَ بِقَٰدِرٍ عَلَىٰٓ أَن يُحۡـِۧيَ ٱلۡمَوۡتَىٰ" [القيامة ٣٧-٤٠]
ترجمہ: کیا وہ ایک حقیر پانی کا نطفہ نہ تھا جو ( رحم مادر مین )ٹپکایا جاتاہے؟ پھر وہ ایک لوتھڑا بنا پھراللہ نے اس کا جسم بنایا اور اس کے اعضا ء درست کیے۔ پھر اس سے مرد اور عورت کی دوقسمیں بنائیں۔ 

"ٱلَّذِي خَلَقَكَ فَسَوَّىٰكَ فَعَدَلَكَ * فِيٓ أَيِّ صُورَةٖ مَّا شَآءَ رَكَّبَكَ " [الانفطار ٧-٨]
ترجمہ۔ جس نے تجھے پیدا کیا، پھرتجھے درست کیا، تجھے تناسب سے بنایا اور جس صورت میں چاہاتجھ کوجوڑ کرتیار کیا۔

١٠- نیم مکمل اورنیم نامکمل جنین(Embryo) 

اگر' مضغہ' کے مرحلے پر جنینن کو درمیان سے کاٹاجائے اور اس کی اندرونی حصّوں کا مطالعہ کیاجائے توہمیں واضح طور پر نظر آئے گا کہ ( مضغہ کے اندرونی اعضاء میں سے ) بیشتر پوری طرح بن چکے ہیں جبکہ بقیہ اعضاء اپنی تکمیل کے مرحلے سے گزر رہے ہیں۔ پروفیسر مارشل جونسن (Prof. Marshal Johnson)کاکہنا ہے کہ اگر ہم پورے جنین کو ایک مکمل بنے ہو یے وجود کے طورپر بیان کریں تو ہم صرف اسی حصّے کی بات کر رہے ہوں گے جو پہلے سے مکمل ہو چکا ہے اور اگر ہم اسے نامکمل وجود کہیں تو پھرجنین کے ان حصّوں کا حوالہ دے رہے ہو گے جو ابھی پوری طرح سے مکمل نہیں ہوئے بلکہ تکمیل کے مراحل طے کر رہے ہیں۔ اب سوال یہ اُٹھتاہے کہ اس موقعے پر جنین کو کیا کہنا چاہیے : مکمل وجود یا نامکمل وجود؟ جنینی نشو و نما کے اس مرحلے کی جو وضاحت قرآن پاک نے ہمیں دی ہے اس سے بہتر کوئی اور ممکن نہیں۔ قرآن پاک اس مرحلے کو نیم مکمل اورنیم نامکمل قراردیتاہے۔ درج ذیل آیات مبارکہ ملا خطہ فرمائیے۔

"يَـٰٓأَيُّهَا ٱلنَّاسُ إِن كُنتُمۡ فِي رَيۡبٖ مِّنَ ٱلۡبَعۡثِ فَإِنَّا خَلَقۡنَٰكُم مِّن تُرَابٖ ثُمَّ مِن نُّطۡفَةٖ ثُمَّ مِنۡ عَلَقَةٖ ثُمَّ مِن مُّضۡغَةٖ مُّخَلَّقَةٖ وَغَيۡرِ مُخَلَّقَةٖ لِّنُبَيِّنَ لَكُمۡۚ"[الحج ٩]
ترجمہ:  اے لوگو! اگر تم دوبارہ اٹھائے جانے کے بارے میں شک میں ہو تو ہم نے تم کو مٹی سے پیدا کیاہے۔ پھر نطفے سے پھر خون کے لوتھڑے سے پھر گوشت کی بوٹی سے جو مکمل (بھی) ہوتی ہے اور نا مکمل بھی۔

١١- سننے اور دیکھنے کی حِسّیات(Senses) 
رحم مادرمیں نشو و نما پانے والے انسانی وجود میں سب سے پہلے جو حس جنم لیتی ہے وہ سننے کی حسِ (حسِ سامعہ) ہوتی ہے۔ ٢٤ ہفتوں بعد کاپختہ جنین ( foetus) آواز یں سننے کے قابل ہو جاتا ہے۔ پھر حمل کے ٢٧ ویں ہفتے تک دیکھنے کی حسِ( بصارت) بھی وجود میں آجاتی ہے اور پردہ چشم ( Retina) روشنی کے لیے حساس ہو جاتاہے ان مراحل کو قرآن پاک یوں بیان فرماتاہے؛۔
وَجَعَلَ لَكُمُ ٱلسَّمۡعَ وَٱلۡأَبۡصَـٰرَ وَٱلۡأَفۡـِٔدَةَ لَعَلَّكُمۡ تَشۡكُرُونَ ( النحل-٧٨)
ترجمہ:۔ اور تم کو کان دیے، آنکھیں دیں اور سمجھنے کی صلاحیت دی۔
إِنَّا خَلَقۡنَا ٱلۡإِنسَٰنَ مِن نُّطۡفَةٍ أَمۡشَاجٖ نَّبۡتَلِيهِ فَجَعَلۡنَٰهُ سَمِيعَۢا بَصِيرًا (الإنسان-٢)
ترجمہ۔: ہم نے انسان کوایک مخلوط نطفے سے پیدا کیا تاکہ اس کا امتحان لیں اور اس فرض کے لیے ہم نے اسے سننے اور دیکھنے والا بنایا۔
وَهُوَ ٱلَّذِيٓ أَنشَأَ لَكُمُ ٱلسَّمۡعَ وَٱلۡأَبۡصَٰرَ وَٱلۡأَفۡـِٔدَةَۚ قَلِيلٗا مَّا تَشۡكُرُونَ (المؤمنون ٧٨)
ترجمہ:۔ وہ اللہ ہی ہے جس ے تمہیں دیکنھے اورسننے کی قوتیں دیں اور سوچنے اور سمجھنے کی صلا حیت دی ہے۔(لیکن) تم لوگ کم ہی شکر گزار ہوتے ہو۔
ملا خطہ فرمائے کہ تمام آیات مبارکہ میں حِس سماعت کا تذکرہ حسِ بصارت سے پہلے آیا ہے، اس سے ثابت ہواکہ قرآن پاک کی فراہم کردہ توضیحات کے جدید جننیات میں ہونے والی دریافتوں سے مکمل طور پر ہم آہنگ ہیں۔

١٢- آبی چکر: (water cycle)
آج ہم جس تصور کو آبی چکر (water cycle ) کے نام سے جانتے ہیں، اسے پہلے 1580ء میں برنارڈپیلیسی (Bernard Pallissy) نامی ایک شخص نے پیش کیا تھا۔ اس نے بتایا کہ سمندر وں سے کس طرح پانی بخارات میں تبدیل ہوتی ہے اور کس طرح وہ سرد ہوا کر بادلوں کی شکل میں آتا ہے۔ پھر یہ بادل خشکی پر آگے کی طرف بڑھتے ہیں، بلند تر ہوتے ہیں ان میں پانی کی تکثیف (Condensation) ہوتی ہے اور بارش برستی ہے۔ یہ پانی جھیلوں، جھرنوں، ندیوں اور دریائوں کی شکل میں آتا ہے اور بہتا ہوا واپس سمندر میں چلا جاتا ہے اس طرح پانی کا یہ چکر جاری رہتا ہے ۔
ساتویں صدی قبل از مسیح میں تھیلس (Thallas) نامی ایک یونانی فلسفی کو یقین تھا کہ سطح سمندر پر باریک باریک آبی قطروں کی پھوار (اسپرے) پیدا ہوتی ہے۔ تیز ہوا اسی پھوار کو اٹھا لیتی ہے اور خشکی کے دور افتادہ علاقوں پر لے جا کر برسا دیتی ہے۔ یہی بارش ہوتی ہے۔
علاوہ ازیں، پرانے وقتوں میں لوگ یہ بھی نہیں جانتے تھے کہ زیر زمین میں پانی کا ماخذ کیا ہے۔ انکا خیال تھا کہ ہوا کی زبردست قوت کے زیراثر سمند ر کی پانی براعظموں (خشکی) میں اندرونی حصوں میں چلا آتا ہے۔ انہیں یہ یقین بھی تھا کہ یہ پانی ایک خفیہ راستے یا عظیم گہرائی سے آتا ہے، سمند ر سے ملا ہوا یہ تصوراتی راستہ افلاطون کے زمانے سے ٹار ٹارس کہلاتا تھا۔ حتی کے اٹھاویں صدی کے عظیم مفکّر ڈسکارٹس (Descartus) نے بھی انہی خیالات سے اتفاق کیا ہے۔
انسیویں صدی عیسوی تک اوسطو (Aristotle) کا نظریہ ہی زیادہ مقبو ل و معروف رہا۔ اس نظریے کے مطابق پہاڑوں کے سرد غاروں میں پانی کی تکثیف (Condensation) ہوتی ہے اور وہ زیر زمین جھیلیں بناتا ہے جو چشموں کا باعث بنتی ہیں ۔
آج ہمیں معلوم ہو چکا ہے کہ بارش کا پانی زمین پر موجود دراڈوں کے راستے رس رس کر زیر زمین پہنچتا ہے اور چشموں کی وجہ بنتا ہے۔ درج ذیل آیات قرآنی میں اس نکتے کی وضاحت فرمائی گئی ہے:

"أَلَمۡ تَرَ أَنَّ ٱللَّهَ أَنزَلَ مِنَ ٱلسَّمَآءِ مَآءٗ فَسَلَكَهُۥ يَنَٰبِيعَ فِي ٱلۡأَرۡضِ ثُمَّ يُخۡرِجُ بِهِۦ زَرۡعٗا مُّخۡتَلِفًا أَلۡوَٰنُهُ"[الزمر ٢١] 
ترجمہ:۔ کیا تم نہیں دیکھتے کہ اللہ تعالیٰ نے آسمان سے پانی برسایا، پھر اس کو سوتوں اور چشموں اور دریائوں کی شکل میں زمین کے اندر جاری کیا، پھر اس پانی کے ذریعے سے وہ طرح طرح کی کھیتیاں نکالتا ہے جن کی قسمیں مختلف ہیں۔

 وَيُنَزِّلُ مِنَ ٱلسَّمَآءِ مَآءٗ فَيُحۡيِۦ بِهِ ٱلۡأَرۡضَ بَعۡدَ مَوۡتِهَآۚ إِنَّ فِي ذَٰلِكَ لَأٓيَٰتٖ لِّقَوۡمٖ يَعۡقِلُونَ (الروم:٢٤)
ترجمہ:۔ وہ آسمان سے پانی برساتا ہے۔ پھر اس کے ذریعے سے زمین کو اس کی موت کے بعد زندگی بخشتا ہے۔ یقیناً اس میں بہت سی نشانیاں ہیں ان لوگوں کے لیے جو عقل سے کام لیتے ہیں۔

وَأَنزَلۡنَا مِنَ ٱلسَّمَآءِ مَآءَۢ بِقَدَرٖ فَأَسۡكَنَّـٰهُ فِي ٱلۡأَرۡضِۖ وَإِنَّا عَلَىٰ ذَهَابِۭ بِهِۦ لَقَٰدِرُونَ (المؤمنون:١٨)
ترجمہ:۔ اور آسمان سے ہم نے ٹھیک حساب کے مطابق ایک خاص مقدار میں پانی اتارا اور اس کو زمین میں ٹھہرا دیا، ہم اسے جس طرح چاہے غائب کر سکتے ہیں۔

١٣- بادلوں کو بار آور کرتی ہوائیں: 

"وَأَرۡسَلۡنَا ٱلرِّيَٰحَ لَوَٰقِحَ فَأَنزَلۡنَا مِنَ ٱلسَّمَآءِ مَآءٗ فَأَسۡقَيۡنَٰكُمُوهُ"
[الحجر:٢٢]
ترجمہ:۔ اور ہم ہی ہوائوں کو بار آور بنا کر چلاتے ہیں، پھر آسمان سے پانی برساتے اور تم کو اس سے سیراب کرتے ہیں۔
یہاں عربی لفظ لواقح ّاستعمال کیا گیا ہے، جو لاقح کی جمع ہے اور لاقحہ سے نکلا ہے، جس کا مطلب بار آور کرنا یا پھر دیناہے، اسی سیاق و سباق میں، بار آور سے مراد یہ ہے کہ ہوا، بادلوں کو ایک دوسرے کے قریب دھکیلتی ہے جس کی وجہ سے ان پر تکثیف (Condensation) کا عمل بڑھتا ہے جس کا نتیجہ بجلی چمکنے اور بارش ہونے کی شکل میں ظاہر ہوتا ہے۔ کچھ اسی طرح کی تو ضیحات قرآن پاک کی دیگر آیات مبارک میں بھی موجود ہیں:

أَلَمۡ تَرَ أَنَّ ٱللَّهَ يُزۡجِي سَحَابٗا ثُمَّ يُؤَلِّفُ بَيۡنَهُۥ ثُمَّ يَجۡعَلُهُۥ رُكَامٗا فَتَرَى ٱلۡوَدۡقَ يَخۡرُجُ مِنۡ خِلَٰلِهِۦ وَيُنَزِّلُ مِنَ ٱلسَّمَآءِ مِن جِبَالٖ فِيهَا مِنۢ بَرَدٖ فَيُصِيبُ بِهِۦ مَن يَشَآءُ وَيَصۡرِفُهُۥ عَن مَّن يَشَآءُۖ يَكَادُ سَنَا بَرۡقِهِۦ يَذۡهَبُ بِٱلۡأَبۡصَٰرِ (النور:٤٣)
ترجمہ:۔ کیا تم دیکھتے نہیں کہ اللہ تعالٰی بادل کو آہستہ آہستہ چلاتا ہے اور پھر اس کے ٹکڑوں کو باہم جوڑتا ہے پھر اسے سمیٹ کر ایک کثیف (Condense)ابربنا دیتا ہے۔ پھر تم دیکھتے ہو کہ اس کے اندر میں سے بارش کے قطرے ٹپکتے چلے آتے ہیں اور وہ آسمان سے ان پہاڑوں جیسے (بادلوں)سے اولے برساتا ہے۔ پھر جسے چاہتا ہے انکا نقصان پہنچاتا ہے اور جسے چاہتا ہے ان سے بچا لیتا ہے اس کی بجلی کی چمک نگاہوں کو خیرہ کیے دیتی ہے۔

ٱللَّهُ ٱلَّذِي يُرۡسِلُ ٱلرِّيَٰحَ فَتُثِيرُ سَحَابٗا فَيَبۡسُطُهُۥ فِي ٱلسَّمَآءِ كَيۡفَ يَشَآءُ وَيَجۡعَلُهُۥ كِسَفٗا فَتَرَى ٱلۡوَدۡقَ يَخۡرُجُ مِنۡ خِلَٰلِهِۦۖ فَإِذَآ أَصَابَ بِهِۦ مَن يَشَآءُ مِنۡ عِبَادِهِۦٓ إِذَا هُمۡ يَسۡتَبۡشِرُونَ (الروم:٤٨)
ترجمہ:۔ اللہ ہی ہے جو ہوائوں کو بھیجتا ہے اور وہ بادل اٹھاتی ہیں، پھر وہ ان بادلوں کو آسمان میں پھیلاتا ہے، جس طرح چاہتا ہے اور انہیں ٹکڑوں میں تقسیم کرتا ہے، پھر تودیکھتا ہے کہ بارش کے قطرے بادل میں سے ٹپکتے چلے آتے ہیں۔ یہ بارش جب وہ اپنے بندوں میں سے جس پر چاہتا ہے برساتا ہے تو یکا یک وہ خوش و خرم ہو جاتے ہیں۔
آبیات (ہائیڈرولوجی Hydrology:) پر دستیا ب، جدید معلومات بھی قرآن پاک میں بیان کردہ متعلقہ وضاحتوں کی پوری طرح تائید کرتی ہیں۔ قرآن مجید کی متعدد د آیات مبارکہ میں آبی چکر کی وضاحت فرمائی گئی ہے۔ مثلاً ملا خطہ ہو: سورة 7آیت 57، سورة 13آیت 17، سورة 25آیات 48تا 49، سورة 35آیت 9، سورة3آیت 34، سورة 45آیت 5، سورة 50آیات 9تا 11، سورة 56آیات 68تا70اور سورة 67آیت 30،
----------------ماخوذ-------------------

Comments

Popular posts from this blog

ہم ذکاة كيسے ادا کریں؟

قربانی کے اجر کو برباد کرنے سے بچیں

نیکیوں کا موسم بہار