فرض نمازوں کے بعد سر یا پیشانی پر ہاتھ رکھ کر دعا کرنا

فرض نمازوں کے بعد سر یا پیشانی پر ہاتھ رکھ کر دعا کرنا
تحریر : وسیم احمد سنابلی مدنی نئی دھلی

        نماز اسلام کے پانچ بنیادی ارکان میں سے ایک نہایت اہم رکن ہے۔ اقامت صلاۃ مؤمن کی پہچان اور ایمان کی نشانی ہے۔ رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ ہمارے اور ان کافروں کے درمیان حد فاصل نماز ہے ۔(صحیح مسلم ۲/۷۰) یہی وجہ تھی کہ یہ کفر کی طرف منسوب ہونے کے خوف سے منافقین بھی مسجد نبوی میں آکر صلوٰۃ ادا کرتے تھے۔ یہ وہ اہم فریضہ ہے جو کسی بھی حال میں معاف نہیں، حالت امن ہو یا حالت خوف، گرمی ہو یا سردی، تندرستی ہو یا بیماری حتی کہ جہاد اور قتال کے موقع پر عین جنگ میں بھی یہ فرض ساقط نہیں ہوتا۔ نماز بذات خود جتنی اہم ہے طریقہ صلاۃ کی اہمیت بھی اسی قدر بڑھ جاتی ہے ۔نماز کے بارے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا حکم صرف یہی نہیں کہ اسے ادا کرو بلکہ حکم یہ بھی ہے کہ اس طرح ادا کرو جس طرح مجھے ادا کرتے دیکھتے ہو۔ (صحیح بخاری رقم ۶۳۱)۔ مگر آج ہمارے بہت سارے مسلمان بھائی اس اہم فریضہ کی ادائیگی کے وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے طریقہ واسوہ کو سامنے نہیں رکھتے اور جہالت و نادانی کی بنا پر بہت سے ایسے افعال کو  نماز کا جزء سمجھ کر انجام دیتے ہیں جن کا نماز میں سے ہونا آپ کی سنت سے ثابت نہیں، اسی طرح کا ایک عمل جو اکثر مساجد میں دیکھنے کو ملتا ہے کہ لوگ فرض نمازوں سے فارغ ہونے کے بعد سر یا پیشانی پر داہنے ہاتھ کو رکھ کر کچھ دعائیں پڑھتے ہیں۔ اس عمل کی حقیقت جاننے کے لیے جب کتب احادیث کی طرف رجوع کیا گیا تو اس سلسلے میں تین روایتیں سامنے آئیں۔ مگر تحقیق سے پتہ چلا کہ تینوں ہی روایتیں موضوع یا انتہائی ضعیف ہیں۔ تفصیل حسب ذیل ہے:
پہلی روایت: "كان إذا صلى مسح بيده اليمنى على رأسه ويقول بسم الله الذي لا اله غيره الرحمن الرحيم اللهم أذهب عنى الهم والحزن"
"اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم جب سلام سے فارغ ہوتے تو اپنا داہنا ہاتھ اپنے سر پر پھیرتے اور مذکورہ دعا پڑھتے کہ اس اللہ کے نام سے جس کے سوا کوئی معبود برحق نہیں ، جو رحمان اور رحیم ہے، اے اللہ ! تو مجھ سے رنج وغم کو دور کر دے"
اس روایت کی تخریج امام طبرانی نے معجم الاوسط (451)اور خطیب بغدادی نے تاریخ بغداد (۱۲/۴۸۰) میں کی ہے۔ سند یہ ہے " عن کثیر بن سلیم أبی سلمة سمعت أنسا به"علامہ البانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ یہ سند کثیر بن سلیم کی وجہ سے انتہائی ضعیف ہے۔ بخاری اور ابوحاتم نے اسے منکر الحدیث کہا ہے امام نسائی اور ازدی رحمہ اللہ نے اسے متروک قرار دیا ہے ۔(سلسلة الاحادیث الضعیفة: رقم ٦٦٠)
 دوسری روایت: كان إذا قضى صلاته مسح جبهته بيده اليمنى ثم قال: أشهد ان لا اله الا الله الرحمن الرحيم اللهم اذهب عنى الهم والحزن "
"نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب نماز سے فارغ ہوتے تو اپنی پیشانی پر اپنے داہنے ہاتھ کو  پھیرتے پھر مذکورہ دعا پڑھتے"
اس روایت کی تخریج ابن السنی نے عمل الیوم واللیلة  (رقم١١٠) میں اور  ابن سمعون نے (الامالی ۲/۱۷۶) میں کی ہے۔ سند اس طرح ہے "عن سلام المدائنى عن زيد العمى عن معاوية بن قرة عن أنس بن مالك رضى الله عنه مرفوعا" 
علامہ البانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ یہ موضوع سند  ہے، سلام المدائنی کذاب راوی ہے اور دوسرا راوی زید العمی  بھی ضعیف ہے۔ اس حدیث کی ایک دوسری سند بھی ہے"عن جبارة حدثنا كثير عن أنس مرفوعا"
اسے ابن عدی نے الکامل (١/٢٧٥) میں کثیر بن سلیم کی احادیث کے ضمن میں نقل کیا ہے۔ فرمایا ان کی انس سے روایتیں اکثر غیر محفوظ ہیں"
 علامہ البانی رحمہ فرماتے ہیں کہ کثیر ضعیف ہیں اسی طرح جبارہ بن المغلس بھی ہیں بلکہ یہ کثیر کے مقابلہ میں زیادہ ضعیف ہیں بعض لوگوں نے انہیں  متہم بالکذب قرار دیا ہے۔(دیکھیے سلسلة الأحاديث الضعيفة رقم حديث ١٠٥٩)
تيسری روایت :
کان إذا قضى صلاته مسح جبهته بكفه اليمنى ثم أمرها على وجهه حتى يأتى بها على لحيته ويقول: بسم الله الذى لا اله الا هو عالم الغيب والشهادة الرحمن الرحيم، اللهم اذهب عنى الغم والحزن والهم، اللهم بحمدك   انصرفت وبذنبى اعترفت أعوذ بك من شر ما اقترف وأعوذبك من جهد بلاء الدنيا ومن عذاب الآخرة"
 اس حدیث کی روایت ابو نعیم نے اخبار اصبہان (۲/۱۰۴) میں کی ہے، سند اس طرح ہے"عن داؤد بن المحبر  ثنا العباس بن رزين السلمى عن خلاي بن عمرو عن ثابت البناني  عن أنس بن مالك مرفوعا"
 علامہ البانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں یہ موضوع سند ہے ۔ داود بن محبر کذاب راوی ہے، دوسرا عباس بن رزین ہے جسے میں نہیں جانتا۔

Comments

Popular posts from this blog

ہم ذکاة كيسے ادا کریں؟

قربانی کے اجر کو برباد کرنے سے بچیں

نیکیوں کا موسم بہار