سائنسی انکشافات اور صداقت قرآن کریم

سائنسی انکشافات اور صداقت قرآن کریم      
تحریر : وسیم احمد سنابلی مدنی نئی دھلی
(پارٹ۔۱)

         بلا شبہہ قرآن کریم اللہ رب العزت کا آخری کلام ہے جسے اس نے قیامت  تک آنے والے تمام انسانوں کی رشد و ہدایت کے لئے نازل فرمایا ہے، جو شخص بھی کھلے ذہن سے طلب حق کے لیے اس کی آیات میں غور و فکر کرے گا تو وہ اس کے کلام ربانی ہونے کا اقرار و اعتراف کئے بغیر نہیں رہ سکتا۔ قرآن کریم نے اپنے آغاز نزول ہی سے دنیا کے سامنے یہ چیلنج پیش کیا کہ جو اس کے کلام الٰہی ہونے میں شک وشبہہ میں مبتلا ہیں وہ اس جیسی ایک سورت یا ایک آیت ہی بنا کر پیش کر دیں مگر  تاریخ شاہد ہے کہ چودہ صدیاں گزر جانے کے بعد بھی قرآن کریم کا یہ چیلنج جوں کا توں برقرار ہے، کسی فرد بشر نے آج تک نہ اسکا جواب دیا اور نہ قیامت تک دے سکتا ہے۔
 موجودہ زمانہ میں سائنسی علوم و حقائق کو تفوق و برتری حاصل ہے، ان کے مشاہدات اور تجربات پر مبنی ہونے کی وجہ سے انہیں مسلمہ حقیقت کا درجہ حاصل ہے۔عصر حاضر میں بعض سائنسی انکشافات نے قرآن کریم کی صداقت اور حقانیت کو دنیا کے سامنے بہت واضح انداز میں اجاگر کردیا ہے، قرآن کریم کی بہت سی آیات میں کائنات،حیات، تخلیق ارض وسما، بحر وبر اور کواکب وسیارات سے متعلق بہت سے ایسے حقائق بیان کئے گئے ہیں جن تک سائنسی دنیا ہزاروں تجربات کرنے کے بعد پہونچ پائی ہے۔علماء ودانشوران محو حیرت ہیں کہ یہ سب کچھ ماضی کے ایسے دور میں بیان کیا گیا ہے جب انسان علم وتعلم کے ابتدائی مرحلے میں تھا وہ سائنس کے ابجد سے ناآشنا، جہالت اور توہم پرستی کے دلدل میں ڈوبا ہوا تھا ۔ بلاشبہہ یہ سائنسی اقرار واعتراف واضح ثبوت ہیں کہ قرآن حکیم ایک ایسی علیم وخبیر ہستی کی طرف سے نازل شدہ ہے جو کائنات اور اس میں موجود مخلوقات کا خالق ومالک ہے اور ان کی رازوں سے واقف اور جانکار ہے۔
 ذیل کے مقالہ میں ان حقائق کا تذکرہ کیا گیا ہے جن کا انکشاف قرآن کریم نے ہزاروں سال پہلے کر دیا ہے۔اور ان تک سائنس کی رسائی ہزار ہا تجربات اور مشاہدات کے بعد کہیں جا کر ہوسکی ہے۔

۱-کائنات کی تخلیق :بگ بینگ(Big Bang): 
فلکی طبیعیات کے ماہرین ابتدائے کائنات کی وضاحت ایک ایسے مظہر کے ذریعے کرتے ہیں جسے وسیع طور پر قبول کیا جاتا ہے اور جس کا جانا پہچانا نام ’’بگ بینگ‘‘ یعنی عظیم دھماکا ہے۔ بگ بینگ کے ثبوت میں گزشتہ کئی عشروں کے دوران مشاہدات و تجربات کے ذریعے ماہرین فلکیات و فلکی طبیعیات کی جمع کردہ معلومات موجود ہیں۔ بگ بینگ کے مطابق ابتدا میں یہ ساری کائنات ایک بڑی کمیت کی شکل میں تھی، (جسے Primary nebula بھی کہتے ہے) پھر ایک عظیم دھماکا یعنی بگ بینگ ہوا، جس کا نتیجہ کہکشاؤں کی شکل میں ظاہر ہوا۔ پھر یہ کہکشائیں تقسیم ہو کر ستاروں، سیاروں، سورج، چاند وغیرہ کی صورت میں آئیں۔ کائنات کی ابتدا اس قدر منفرد اور اچھوتی تھی کہ اتفاق سے اس کے وجود میں آنے کا احتمال صفر (کچھ بھی نہیں) تھا۔
قرآن پاک کی درج ذیل آیات میں ابتدائے کائنات کے متعلق بتایا گیا ہے:

’’أَوَلَمْ يَرَ الَّذِينَ كَفَرُوا أَنَّ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ كَانَتَا رَتْقًا فَفَتَقْنَاهُمَا ۖ ‘‘[ الأنبیاء ۳۰]
ترجمہ: ’’اور کیا کافر لوگوں نے نہیں دیکھا کہ جملہ آسمانی کائنات اور زمین (سب) ایک اکائی کی شکل میں جڑے ہوئے تھے پس ہم نے ان کو پھاڑ کر جدا کر دیا‘‘ 
اس قرآنی آیت اور بگ بینگ کے درمیان حیرت انگیز مماثلت سے انکار ممکن ہی نہیں ! یہ کیسے ممکن ہے کہ ایک کتاب جو آج سے 1400سال پہلے عرب کے ریگستانوں میں ظاہر ہوئی، وہ اپنے اندر ایسی غیر معمولی سائنسی حقیقت لیے ہوئے ہو۔

۲-پھیلتی ہوئی کائنات:
1925ء میں امریکی ماہر طبیعیات ایڈون ہبل (Edwin Hubble) نے اس امر کا مشاہداتی ثبوت فراہم کیا کہ تمام کہکشائیں ایک دوسرے سے دور ہٹ رہی ہیں، جس کا مطلب یہ ہوا کہ کائنات پھیل رہی ہے۔ یہ بات آج مسلمہ سائنسی حقائق میں شامل ہے۔ ملاحظہ فرمائیے کہ قرآن پاک میں کائنات کی فطرت اور خاصیت کے حوالے سے کیا ارشاد ہوتا ہے:

’’وَالسَّمَاءَ بَنَيْنَاهَا بِأَيْدٍ وَإِنَّا لَمُوسِعُونَ‘‘[الذاریات ۴۷]
ترجمہ: ’’اور آسمان کو ہم نے اپنے ہاتھوں سے بنایا اور یقیناً ہم اسے وسعت اور پھیلاؤ دیتے جا رہے ہیں"
عربی لفظ ’’موسعون‘‘ کا صحیح ترجمہ ’’ہم وسعت اور پھیلاؤ دیتے جا رہے ہیں‘‘ بنتا ہے اور یہ ایک ایسی کائنات کی طرف اشارہ کرتا ہے جس کی وسعتیں مسلسل پھیلتی جا رہی ہوں۔ عصر حاضر کا مشہور ترین فلکی طبیعیات دان اسٹیفن ہاکنگ (Stephen Hawking) اپنی تصنیف اے بریف ہسٹری آف ٹائم میں لکھتا ہے۔ یہ دریافت کہ کائنات پھیل رہی ہے، بیسویں  صدی کے عظیم علمی و فکری انقلابات میں سے ایک ہے۔
غور فرمائیے کہ قرآن پاک کے کائنات کے پھیلنے کو اس وقت بیان فرما دیا ہے جب انسان نے دوربین تک ایجاد نہیں کی تھی۔

۳- پیدائشِ حیات اور پانی:
قرآن کریم میں اللہ رب العزت نے واضح فرمایا:
’’وَجَعَلْنَا مِنَ الْمَاء کُلَّ شَیْئٍ حَیٍّ اَفَـلَا یُؤْمِنُوْنَ‘‘ [ الانبياء ٣٠]
’’اور ہم نے ہر جاندار چیز پانی سے بنائی تو کیا وہ ایمان نہیں لائیں گے‘‘؟
یعنی تمام جاندار اشیاء کی ابتدا پانی  سے کی گئی ہےاور یہ اصول بھی آج کے موجودہ سائنسی نظریات کےلئے راہنما اصول ہے جو یہ ماننے پر مجبور ہوئے ہیں کہ تمام تر زندگی کی موجودگی کےلئے پانی کی موجودگی اور اس سے تعلق لازم ہے-
زمین پر زندگی کی ابتدا کے متعلق غالب سائنسی نظریہ جن بنیادی قوانین پر قائم ہے ان میں ایک پانی کی موجودگی ہے جیسا کہ  پروفیسر ڈیلتوو مولر (Detlev Möller) کہتے ہیں:
‘‘One of the fundamental requirements for life as we know it is the presence of liquid water on (or below) a planet’s surface.’’
’’ زندگی کی جس حالت کو ہم جانتے ہیں اس  کےلئے ایک بنیادی ضرورت سیارہ کی سطح پر(یا نیچے) پانی کی موجودگی ہے‘‘-
برٹش بائیو کیمسٹ ڈاکٹر نِک لین(Nick Lane) کے مطابق:
‘‘It is possible to trace a coherent pathway leading from no more than rocks, water and carbon dioxide to the strange bioenergetics properties of all cells living today.’’
’’ایسا بالکل ممکن ہے کہ آج  تمام زندہ خلیوں کی عجیب بائیو جینیٹک خصوصیات  کا تعلق چٹانوں،پانی اور کاربن ڈائی آکسائیڈ میں تلاش کر لیا جائے‘‘-
یہاں یہ امر قابلِ ذکر ہے کہ اللہ رب العزت نے اپنی نشانی بیان فرمائی مگر ان امور کی تفصیل انسان کے لئے چھوڑی گئی ہے کہ اپنی سمجھ بوجھ اور عقل کو استعمال کرتے ہوئے اللہ رب العزت کی مخلوق کے متعلق علم حاصل کرے -یہ علم انسان کے ایمان میں اضافہ کا ہی باعث بنتا ہے - بشرطیکہ اس کی حدود و قیود اور دائرہ کار کو پرکھتے ہوئے ان حقائق کا مطالعہ کیا جائے اور ان سے سبق حاصل کیا جائے-

Comments

Popular posts from this blog

ہم ذکاة كيسے ادا کریں؟

قربانی کے اجر کو برباد کرنے سے بچیں

نیکیوں کا موسم بہار