اللہ کی عظمت اور حضرت انساں کی بےبسی
اللہ کی عظمت اور حضرت انساں کی بےبسی
بقلم وسیم احمد مدنی، استاد جامعہ اسلامیہ سنابل نئی دہلی
انسان کمزور اور ضعیف ڀیدا کیا گیا ہے جیسا کہ بارئ تعالی کا ارشادہے:"خلق الإنسان ضعیفا"[النساء ۲۸]مگر انسانوں نے بارہا اس حقیقت کو بھلا کر اپنے کو سپرپاور اور قادر مطلق سمجھنے کی بھیانک غلطی کی ہے۔ کئی بار تو اس نے کھلے لفظوں میں رب اعلی ہونے کا نعرہ بھی بلند کیا ہے۔ فرعون، قارون، شداد، نیپولین اور جارج ڈبلو بش وغیرہ جیسے جابر وظالم حکمراں اسی صف کے نمایاں چہرے ھیں۔موجودہ زمانے میں بھی ایسے زعماء ولیڈران کی کمی نہیں جو اس زعم باطل میں مبتلا ہیں کہ طاقت وقوت اور اقتدار و حکومت کے مالک حقیقی وہی ہیں، کوئی انہیں زیر نہیں کرسکتا۔
اپنی طاقت کے نشہ میں حق وانصاف سے آنکھیں بند کرکے جہاں چاہتے ہیں بم برساتے ہیں، آبادیوں کو کھنڈرات میں تبدیل کرکے اپنی ناقابل تسخیر طاقت ہونے کا مظاہرہ کرتے ہیں۔بچوں کو یتیم ولاوارث اور عورتوں کو بیوہ بناکر ان کی چیخوں اور سسکیوں سےاپنے مقتدر اعلی ہونے کا ثبوت فراہم کرتے ہیں۔ افغانستان، شام، عراق اور لیببیا جیسے ممالک اسی قسم سفاکی اور درندگی کی کھلی کتاب ہیں
دوسری طرف مالک ارض وسماء کی ذات ہے جو گاہے بگاہے ان مدحوش اور غافل انسانوں کو جھنجھوڑتی رہتی ہے۔ اور اپنے قادر مطلق ہونے کا انہیں احساس دلاتی رہتی ہے۔ کبھی زلزلے کی شکل میں زمیں کو ہلا کر تو کبھی تیز وتند آندھیوں کے ذریعے تو کبھی سنامی وسیلاب کے ذریعے، جہاں آن واحد میں ہزاروں لاکھوں انسان اس صفحئہ ہستی سے نیست ونابود ہوجاتے ہیں، اونچے اونچے محلات اور فلک شگاف بلڈنگیں زمیں بوس ہوجاتی ہیں اور انسان کی ساری تدبیریں اور اس کی ساری ترقی وتوانائی دھری کی دھری رہ جاتی ہیں۔ اور یہ فریب خوردہ انسان تھوڑی دیر کے لئے ہی سہی حقیقی سپرپاور کا اعتراف کرنے پر مجبور ومقہور نظر آتا ہے، اور اپنی لاچاری وبےبسی کی تصویر بن کر پھٹی پھٹی آنکھوں سے سب کچھ دیکھتا رہتا ہے۔ اسی قسم کا ایک بھیانک منظر اس وقت پوری دنیا کے سامنے ہے جہاں آنکھوں سے نظر نہ آنے والی ننھی سی اللہ کی ایک مخلوق نے جسے ہم کرونا وائرس کے نام سے جانتے ہیں، پوری دنیا پر اپنا خونی پنجہ نصب کر چکی ہے۔ اور ہر روز ہزاروں انسانوں کو موت کے گھاٹ اتار رہی ہے مگر اس کے سامنے ساری دنیا ڈری سہمی ہوئی بےبسی کا مظہر بن کر آسمان والے کی طرف نظریں اٹھانے پر مجبور ہے۔حیرت تو یہ ہےکہ یہ سب کچھ ایسے زمانے میں ہورہا ہے جب انسان سائنس اور ٹیکنالوجی کے میدان میں بام عروج پہ پہونچ چکا ہے، ستاروں اور سیاروں پر کمندیں ڈال رہا ہے، فضاؤں میں برق رفتاری کے ساتھ پروازیں کر رہا ہے، اتھاہ سمندر کے تہوں کو کنھال رہا ہے ، ہوا کی لہروں کو اپنا تابع بنا کر دنیا کو اپنی مٹھی میں کر چکا ہے۔ میڈیکل اور طب کے میدانوں ایسی ترقی کہ آسانی سے دل گردے اور پھھڑے تبدیل کر رہا ہے۔ مگر یہ ساری ترقیاں ایک طرف اللہ کی ایک انتہائی چھوٹی مخلوق دنیا کے چیلنج بنی ہوئی ہے، انسانوں کو ان کی ضعف وکمزوری کا زبردست احساس دلا رہی ہے۔ پوری دنیا تھم سی گئی ہے۔ پرسکون فضاؤں میں گرجتے ہوئے ہوائی جہاز خاموش، دھرتی کے سینے پر سرپٹ دوڑتی ٹرینیں خاموش، دھواں اگلتی بڑی بڑی فیکٹریاں اور کارخانےخاموش، ہر قسم کی گاڑیوں سے ہمہ وقت بھری ہوئی سڑکیں سنسان۔ ہر طرف ویرانی ہی ویرانی، دہشت ہی دہشت، خوف کے مارے ہر انسان گھروں میں دبکا ہوا ہے، اپنے اعزہ واقرباء دوست واحباب سے ملنے سے گریزاں ہے، نفسی نفسی کا عالم ہے اور قیامت کا سا منظر۔
بلا شبہہ یہ بلا اور وبا جہاں ایک طرف خالق ارض وسما کی عظمت اور اس کی قدرت کاملہ کا کھلا اعلان ہے وہیں حضرت انساں کی کمزوری ولاچاری کا حقیقی مظہر بھی، جو انہیں یہ واضح پیغام دے رہی ہیں کہ اے ضعیف وناتواں انسان! اپنے خالق ومالک کو پہچان، قادر مطلق سے اپنا رشتہ جوڑ۔ ظلم و جور اور سرکشی کا رویہ چھوڑ کر اپنے گناہوں سے تائب ہو اور اس کے سامنے سر تسلیم خم کرکےنجات کے لئے فریاد کر۔۔۔
ارشاد ربانی ہے:
قُلْ هُوَ الْقَادِرُ عَلَىٰ أَن يَبْعَثَ عَلَيْكُمْ عَذَابًا مِّن فَوْقِكُمْ أَوْ مِن تَحْتِ أَرْجُلِكُمْ أَوْ يَلْبِسَكُمْ شِيَعًا وَيُذِيقَ بَعْضَكُم بَأْسَ بَعْضٍ ۗ انظُرْ كَيْفَ نُصَرِّفُ الْآيَاتِ لَعَلَّهُمْ يَفْقَهُونَ - 6:65
"کہو، وہ اِس پر قادر ہے کہ تم پر کوئی عذاب اوپر سے نازل کر دے، یا تمہارے قدموں کے نیچے سے برپا کر دے، یا تمہیں گروہوں میں تقسیم کر کے ایک گروہ کو دوسرے گروہ کی طاقت کا مزہ چکھوا دے دیکھو، ہم کس طرح بار بار مختلف طریقوں سے اپنی نشانیاں ان کے سامنے پیش کر رہے ہیں شاید کہ یہ حقیقت کو سمجھ لیں"
Comments
Post a Comment